حال ہی میں استنبول میں موجودہ اور سابق وزرائے خارجہ، اور سرکردہ علمی شخصیات کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا، Enhancing Peace through Mediation: New Actors, Fresh Approaches, Bold Initiatives," ، یعنی مصالحت کے ذریعے امن کا فروغ: نئے کردار، نئے طریقے، جرأت مندانہ تجاویز۔ یہ کانفرنس فن لینڈ کے تعاون سے منعقد ہوئی تھی اور اس کا مقصد استنبول میں ایک بین الاقوامی مصالحتی مرکز کا قیام تھا۔
ترک وزیرِ خارجہ احمد داوت اغلو نے جو اس تجویز کے خالق تھے، کہا کہ ترکی مصالحانہ کردار ادا کرنے کے لیے انتہائی موزوں ملک ہے ۔’’ترکی کے لیے اس کی اہمیت اتنی زیادہ کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہم بلقان کے علاقے سے لے کر وسط ایشیا تک ، جغرافیائی اور سیاسی زلزلوں کے مرکز میں واقع ہیں۔ ترکی اس علاقے کے عین وسط میں واقع ہے، اور جتنے بھی بحران آئے ہیں، تاریخی، اور ثقافتی اعتبار سے ان کا براہِ راست یا بلا واسطہ تعلق ترکی سے رہا ہے‘‘۔
اس تجویز کے تین پہلو ہیں: ثالثی کی اہمیت کے بارے میں آگہی میں اضافہ کرنا، اقوامِ متحدہ میں اور علاقائی سطح پر مصالحت کی گنجائش کو بڑھانا، اور ترکی کے لیے، اپنے علاقے کے اندر اپنے رول کو نمایاں کرنا۔ اس تجویز کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ناصر عبدالعزیز النصر کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔استنبول میں میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے، زیادہ علاقائی انداز اختیار کرنا ضروری ہے ۔
’’مختلف علاقوں اور ان کے ذیلی علاقوں کا رول روز بروز زیادہ اہم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ علاقائی تنظیمیں اپنے اپنے علاقوں کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ لہٰذا ، تنازعات کے پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے، اقوامِ متحدہ کو علاقائی کرداروں اور تجاویز کی حمایت کرنی چاہیئے ۔‘‘
شام میں جاری خونریزی اس میٹنگ کے شرکاء کے ذہنوں پر پوری طرح حاوی تھی۔ ترکی اور شام کی سرحد 900 کلو میٹر طویل ہے اور ترکی جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترکی شام پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان Selcuk Unal کہتے ہیں کہ سفارتی حل تلاش کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
’’شام کا بحران شروع ہونے کے بعد ہی سے، ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ ہم سفارتی ذرائع سے اس مسئلے کو حل کر لیں۔ ہم یہ کوششیں جاری رکھیں گے، اور چونکہ خونریزی جاری ہے، اس لیے ہم اس صورتِ حال پر خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔ عرب لیگ کی کوششیں ناکام ہو گئیں، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد ناکام ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کئی سفارتی اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں تیونس میں میٹنگ ہوئی ہے ۔‘‘
تیونس کی میٹنگ ’’ فرینڈز آف سیریا‘‘ کے عنوان کے تحت ہوئی اور اس میں شام کی حزبِ اختلاف کے حامی ممالک جمع ہوئے ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا، لیکن اگلے مہینے استنبول میں دوسری میٹنگ ہو گی۔
استنبول میں اس علاقے کے ایک اور بڑے بحران کے بارے میں ایک بین الاقوامی اجتماع ہو گا۔ اس بحران کا تعلق ایران کے نیوکلیئر توانائی کے متنازع پروگرام سے ہے ۔
گذشتہ سال ترکی نے سلامتی کونسل میں ایران پر اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اس وجہ سے ترکی کے تعلقات اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ کشیدہ ہو گئے تھے ۔ لیکن اس کے بعد، ترکی پھر اپنے مغربی اتحادیوں کے حلقے میں شامل ہو گیا ہے ۔ اس نے نیٹو کے میزائل شکن دفاعی نظام میں شرکت پر رضامندی ظاہر کی ہے جس کا بنیادی ہدف ایران ہے۔ اس کے علاوہ، ترکی نے شام کی سخت مخالفت کی ہے جب کہ شام تہران کا اہم اتحادی ہے ۔
ترک اخبار Haberturk کے بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سلی اوزل کہتے ہیں کہ تہران کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود، ترکی ، تہران کے ساتھ مکاملے میں شریک ہے ۔’’ترکی کے بارے میں آپ کے احساسات چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہوں، وہ شام کے مسئلے کے کسی بھی حل میں ضرور شریک ہو گا۔ لیکن یہ کوئی ایسا حل ہو سکتا ہے جو ترکوں کو پسند ہو، اور ایران کو بھی۔ ایران کو اب بھی ترکی کے سفارتی رابطوں کی ضرورت ہے، اور صرف یہی ایسا ملک ہے جو سفارتی حل کے لیے سخت کوشش کرتا ہے ۔ اور ایرانیوں کا خیال ہے کہ وہ ترکوں پر زیادہ اعتبار کر سکتے ہیں کیوں کہ ہم گیس اور اسی قسم کی چیزوں کے لیے انہیں پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
مصالحت کی تجویز کے ذریعے، ترکی ایک ایسے علاقے میں جہاں عدم استحکام اور بحرانوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے،اپنے سفارتی کردار کو باقاعدہ شکل دینا چاہتا ہے۔