1980ء میں ترک فوج کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کے لیڈر، ریٹائرڈ جنرل کینان ایورن، اور ان کے ساتھ سازش میں شریک ملزم، ایئر فورس کے سابق سربراہ تاحسن ساحنکایا پر انقرہ کی ایک عدالت نے مملکت کے خلاف جرائم کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔
فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے استنبول شہر کے مرکز میں، تقسیم اسکوائر میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اب یہاں لوگوں کے جذبات ملے جلے ہیں۔
کئی افراد فوجی لیڈروں کے خلاف عدالتی کارروائی کے حق میں ہیں۔
’’انھوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بہت سے لوگوں کو اذیتیں دی گئیں۔ بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان پر مقدمہ چلانا چاہیئے۔‘‘
’’حکومت کو چاہیئے کہ ان پر مقدمہ چلائے کیوں کہ انھوں نے جمہوریت کو تباہ کر دیا۔ لوگ آج بھی ان سے نفرت کرتے ہیں۔ میرے والد کو ان کے سپاہیوں نے اذیتیں دی تھیں۔‘‘
لیکن ایک صاحب کی رائے مختلف ہے اور وہ کہتے ہیں ’’جی نہیں ، میں نہیں مانتا ۔ مجھے ان پر اعتماد ہے کیوں میں نے وہ وقت دیکھا ہے، اور میں جانتا ہوں کہ کیا ہوا تھا۔‘‘
فوج کے جنرلوں نے 1980ء میں برسوں کی سیاسی بے چینی کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کارروائی میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ استغاثے کے وکیلوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں شورش اور بے چینی فوج نے پھیلائی تھی۔ اس کے بعد، فوجی حکومت کے دور میں 50 افراد کو پھانسی دی گئی ، اور لاکھوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان میں سے بہت سوں کو اذیتیں دی گئیں۔ ان میں ڈیفنے سانڈالائی بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فوج کے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد، مجھے دو بار گرفتار کیا گیا۔ میں نے اپنا بیشتر وقت پوچھ گچھ کے مرکز میں گزارا جو در اصل اذیتیں دینے کا مرکز تھا۔ پہلی بار مجھے وہاں ایک مہینے رکھا گیا اور پھر چھوڑ دیا گیا، اور پانچ مہینے بعد، مجھے پھر گرفتار کر لیا گیا۔ پھر میں نے اس عقوبت خانے میں ساڑھے تین مہینے گزارے۔‘‘
اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجیوں کے ان دو لیڈروں پر فرد ِ جرم ایسے وقت میں عائد کی گئی ہے جب ترکی میں بالآخر فوج کی حکمرانی کے تاریک دور کو بے نقاب کیا جارہا ہے۔ سانڈالائی کہتے ہیں ’’ایسا کرنا اہم ہے کیوں کہ ترکی کے لوگ اپنے ماضی کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اس کے علاوہ، لوگ یہاں بڑی جلدی بر سر اقتدار لوگوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک کسی نے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ فوج کیا کچھ کر سکتی ہے اور وہ کیا کرتی رہی ہے۔‘‘
اپنے اقتدار کے دس برسوں میں، اسلامی رجحانات کی حامل اے کے پارٹی نے سیکولر ازم کی علمبردار فوج کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ 2010ء میں ایک ریفرینڈم کے نتیجے میں آئینی اصلاحات منظور کی گئیں جن کے تحت فوجی بغاوت کے لیڈروں پر مقدمہ چلائے جانے سے استثنیٰ ختم کر دیا گیا۔ لیکن ان کے خلاف فرد جرم کے وقت کے بارے میں کچھ سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ ترکی کے اخبارملی یٹ کے سیاسی کالم نگار، قادری گوسیل کے مطابق ’’ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیئے کیوں کہ انھوں نے جرم کا ارتکا ب کیا ہے جسے قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی نہ اس کا کوئی جواز ہو سکتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ بحث کا رُخ کسی اور طرف موڑ دیا جائے جس کے نتیجے میں ایجنڈا بھی تبدیل ہو جائے گا۔‘‘
حکومت پر ملک کے اندر اور باہر اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپی یونین نے ترکی میں انسانی حقوق اور اس کی عدلیہ پر سخت تنقید کی ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے سیاست میں فوج کا رول ختم کرنا حکومت کا ایک بنیادی مقصد رہا ہے۔ Bahcesehir University میں سیاسیات کے ماہر چنگیز اختر کہتے ہیں کہ فوجی کارروائی کے لیڈروں پر مقدمہ چلانے کا پس پردہ مقصد چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، ترکی میں جمہوریت کے لیے یہ ایک اہم قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک علامتی اقدام ہے۔ یہ بہت اہم اقدام ہے۔ اس شخص، ایورن نے، فوجی ٹولے کو منظم کیا اور ان کی رہنمائی کی۔ اور اب تک وہ بڑے عیش و آرام سے، Turkish Riviera میں زندگی گزارتا رہا ہے۔ میرے خیال میں اب اسے اپنے جرائم کی قیمت ادا کرنی چاہیئے۔ 1980ء میں فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے اس ملک میں جمہوری زندگی کو بڑا نقصان پہنچا، اور ہم آج بھی اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔‘‘
استغاثے نے فوجی کارروائی کے لیڈروں کے لیے عمر قید کی سزا مانگی ہے۔ کینان ایورن کی عمر 94 سال اور تاحسین ساحنکایا کی 86 سال ہے۔ فوجی حکومت کے دور میں جن لوگوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں، انہیں اب بھی اُمید ہے کہ عدالت میں ذمہ دار لوگوں کی جوابدہی ہو گی۔ مبصرین کہتےہیں کہ یہ ایسی بات ہے جس کا چند برس پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔