ترکی نے شام کے ہزاروں پناہ گزینوں میں سے کچھ کے خیمے اپنی سرحد سے اندورنی علاقے کی جانب منتقل کرنے شروع کردیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عہدے داروں اور اداکارہ انجلینا جولی نے جمعرات کو ایک پناہ گزین کیمپ کا دورہ کیا، جس سے یہ کیمپ ایک بار پھر میڈیا کی سرخیوں کا موضوع بن گئے۔
کیلس پناہ گزین کیمپ شام کے ساتھ ملحق ترک سرحد پر واقع ہے اور اس کیمپ میں تقریباً 12 ہزار پناہ گزین رہ رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر اور ہالی وڈ سٹار انجلینا جولی کے دورے نے پناہ گزینوں کی حالت زار کو دوبارہ خبروں کی سرخیوں کا موضوع بنادیا ۔ لیکن کیمپ میں رہنے والے بہت سے افراد ، جن میں چاربچوں کاوالد ابوعمر بھی شامل ہے ، زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
ابوعمر کا کہناتھا کہ انہیں اقوام متحدہ سے کچھ ملنے کی توقع نہیں ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ اس عالمی ادارے کی جانب سے کچھ نہیں ملنے والا کیونکہ اقوام متحدہ کے عہدے دار پہلے بھی یہاں کئی بار آچکے ہیں ۔ لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے کمشنر ایٹانیو گٹریس نے دوسرے ممالک سے مدد کی اپیل کی ہے۔
ان کا کہناہے کہ ترکی، لبنان، اردن اور عراق پناہ گزینوں کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں۔ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی بھی اس کام میں ان کی مدد کرے۔
ترکی کا کہناہے کہ ایک اندازے کے مطابق ان کے ملک میں 80 ہزار پناہ گزین شام کی سرحد کے قریب 10 کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ جب کہ 30 سے 40 ہزار تک شامی پناہ گزینوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کیمپوں سے باہر شہروں اور قصبوں میں مقیم ہیں۔ کئی ایک اپنے رشتے داروں کے پاس ہیں اور بعض مختلف شہروں میں مثلا Antakya کرائے کے گھروں میں مقیم ہیں۔
ترکی نے سرحدی علاقے سے پناہ گزین کیمپوں کو منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔
ترکی نے ابتدا میں تو اس بحران سے تن تنہا مقابلے کی کوشش کی لیکن پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اب اسے بین الاقوامی برداری کی مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
شام سے پناہ گزین بدستور اپنا گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کے لیے پڑوسی ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ پربدھ کو کسی شہری کی جانب سے شائع کی جانے والی ایک فوٹیج میں دکھایا گیا ہے حلب میں توپوں کے گولوں کی گن گرج میں لوگ اپنے سوٹ کیس اٹھائے جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً ڈھائی لاکھ شامی باشندے اپنے گھروں سے فرار ہوچکے ہیں۔ کئی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بین الاقوامی کمیونٹی کو اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
کیلس پناہ گزین کیمپ شام کے ساتھ ملحق ترک سرحد پر واقع ہے اور اس کیمپ میں تقریباً 12 ہزار پناہ گزین رہ رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر اور ہالی وڈ سٹار انجلینا جولی کے دورے نے پناہ گزینوں کی حالت زار کو دوبارہ خبروں کی سرخیوں کا موضوع بنادیا ۔ لیکن کیمپ میں رہنے والے بہت سے افراد ، جن میں چاربچوں کاوالد ابوعمر بھی شامل ہے ، زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
ابوعمر کا کہناتھا کہ انہیں اقوام متحدہ سے کچھ ملنے کی توقع نہیں ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ اس عالمی ادارے کی جانب سے کچھ نہیں ملنے والا کیونکہ اقوام متحدہ کے عہدے دار پہلے بھی یہاں کئی بار آچکے ہیں ۔ لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے کمشنر ایٹانیو گٹریس نے دوسرے ممالک سے مدد کی اپیل کی ہے۔
ان کا کہناہے کہ ترکی، لبنان، اردن اور عراق پناہ گزینوں کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں۔ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی بھی اس کام میں ان کی مدد کرے۔
ترکی کا کہناہے کہ ایک اندازے کے مطابق ان کے ملک میں 80 ہزار پناہ گزین شام کی سرحد کے قریب 10 کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ جب کہ 30 سے 40 ہزار تک شامی پناہ گزینوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کیمپوں سے باہر شہروں اور قصبوں میں مقیم ہیں۔ کئی ایک اپنے رشتے داروں کے پاس ہیں اور بعض مختلف شہروں میں مثلا Antakya کرائے کے گھروں میں مقیم ہیں۔
ترکی نے سرحدی علاقے سے پناہ گزین کیمپوں کو منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔
ترکی نے ابتدا میں تو اس بحران سے تن تنہا مقابلے کی کوشش کی لیکن پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اب اسے بین الاقوامی برداری کی مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
شام سے پناہ گزین بدستور اپنا گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کے لیے پڑوسی ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ پربدھ کو کسی شہری کی جانب سے شائع کی جانے والی ایک فوٹیج میں دکھایا گیا ہے حلب میں توپوں کے گولوں کی گن گرج میں لوگ اپنے سوٹ کیس اٹھائے جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً ڈھائی لاکھ شامی باشندے اپنے گھروں سے فرار ہوچکے ہیں۔ کئی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بین الاقوامی کمیونٹی کو اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔