ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ امریکہ یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ ترکی کو روسی ایس 400 دفاعی میزائل کی خریداری ختم کر دینی چاہیے۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق رجب طیب ایردوان نے اس طرح کی تجویز کو خود مختاری کے حق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ نے ترک ہم منصب سے ملاقات کے دوران اُن پر زور دیا تھا کہ ایس 400 دفاعی نظام کو خیرباد کہا جائے، جو جولائی میں ترکی پہنچنا شروع ہوئے تھے۔
اس ملاقات کے بعد جب ترک صدر رجب طیب ایردوان سے پوچھا گیا کہ آیا ترکی ایس 400 میزائل کو نصب نہ کرنے پر غور کرے گا؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ترکی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ انھوں نے اس بات کا پھر سے اعادہ کیا کہ وہ امریکی پیٹریاٹ میزائل خریدنا چاہتے ہیں۔
نشریاتی اداروں سے وابستہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم نے کہا ہے کہ یہ تجویز کہ پیٹریاٹ خریدنے سے پہلے ہمیں ایس 400 نظام کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا، خود مختاری کے حق سے تجاوز ہے، جسے ہم درست نہیں سمجھتے۔‘‘
ترک صدر نے کہا کہ ’’یہ جوڑ کے رکھنے والے بندھن کا معاملہ ہے، ہم نے روس کے ساتھ حکمت عملی کی حامل چند کوششیں کی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ترک اسٹریم‘ قدرتی گیس پائپ لائن، جو روس سے ترکی جاتی ہے، اس سے یورپ کو گیس فراہم ہو گی۔ پیٹریاٹس کے لیے ایس 400 معاہدے کو ختم نہیں کر سکتے۔ اگر آپ پیٹریاٹ دینا چاہتے ہیں تو ضرور دیں۔‘‘
دونوں صدور کے مابین اچھے تعلقات کی بنا پر ایس 400 کے معاملے پر اب تک ترکی امریکہ کی جانب سے لگنے والی تعزیرات سے بچتا رہا ہے۔ لیکن، امریکہ نے ترکی کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے پر پابندی لگائی ہے اور ترکی کو اس کثیر ملکی پروگرام سے الگ کر دیا ہے جو لڑاکا طیارے بناتا ہے۔
ایردوان نے کہا کہ ایف 35 کے معاملے پر انھوں نے ٹرمپ کے انداز کو بہت مثبت پایا۔
بدھ کے روز ہونے والے ایک اجلاس میں ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے پانچ سینیٹروں نے ایردوان کی جانب سے روسی اسلحہ خریدنے کے محرکات پر سوال اٹھائے۔
کانگریس کے ایک ذریعے نے اجلاس کے بعد بریفنگ میں بتایا کہ ’’سینیٹروں نے ایردوان پر یہ بات واضح کر دی کہ وہ ترکی کے اتحادی رہنا چاہتے ہیں، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ترکی روسی میزائل نظام بھی خریدے اور ساتھ ہی اس بات کی توقع رکھے کہ اس کے نتائج برآمد نہیں ہوں گے‘‘۔
اس اجلاس کا مقصد ترکی کی جانب سے روسی اسلحہ خریدنے کے معاملے کو زیر غور لانا تھا۔ لیکن، یہ اجلاس طول پکڑ کر ایک گھنٹے سے زیادہ لمبا ہو گیا جس میں شام پر بھی بحث کی گئی۔ ذریعے نے مزید بتایا کہ ٹرمپ نے سینیٹروں کے سوالات تفصیلی طور پر سنے، اور اجلاس کے آغاز پر چند کلمات ادا کیے۔
ایردوان نے آئی پیڈ پر ایک ویڈیو دکھائی جس میں کرد ملیشیا کی مبینہ مخاصمانہ کارروائیاں دکھائی گئی تھیں۔ ایردوان نے کہا کہ ویڈیو فوٹیج ملاحظہ کرتے ہوئے، ٹرمپ کافی ’متاثر‘ نظر آئے۔
ترک نے شام کے سرحدی علاقے میں نو اکتوبر کو کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس پر امریکی کانگریس مین نے غصے کا اظہار کیا تھا۔