صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کو ’ٹرکش‘ ایئر لائنز کی افتتاحی پرواز ترکی کا تازہ ترین اقدام ہے جس سے جنگ سے تباہ حال اس ملک کے ساتھ ترکی کی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔
گذشتہ سال ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کسی مغربی ملک کے پہلے لیڈر تھے جو کئی عشروں میں صومالیہ کے دورے پر گئے تھے۔
موغادیشو کو پہلی پرواز کے موقعے پر ترکی کے نائب وزیرِاعظم بیکربوزڈاگ نے صحافیوں سے کہا کہ ان کے ملک نے صومالیہ میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں مدد دینے کا عزم کر رکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سکیورٹی کے سنگین مسائل موجود ہیں جو مختصر عرصے میں حل نہیں ہو سکتے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ترک لیڈروں نے بتا دیا ہے کہ ان کی رائے میں قیامِ امن کے لیے کیا اقدام ضروری ہیں۔ اس مقصد کے لیے جو مثبت پیش رفت ہوئی ہے، ترکی اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔
ٹرکش میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ترکی الشباب کے عسکریت پسندوں اور صومالی حکومت اور افریقی یونین کی فورسز کے درمیان لڑائی ختم کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ترکی کی امدادی ایجنسیاں صومالی حکومت اور الشباب کے زیرِ کنٹرول، دونوں علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔ ترکی نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ صومالیہ کی حکومت کو تربیت اور امداد دینے کو تیار ہے۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیلوک انال کہتے ہیں کہ یہ کوششیں افریقہ میں زیریں صحارا کے علاقے سے ترکی کی بڑھتی ہوئی وابستگی کا حصہ ہیں۔
’’افریقہ میں بہت سے تنازعات ایک عرصے سے موجود ہیں اور ہم نے اس کے شمالی حصے سے ہمیشہ پائیدار تعلقات قائم رکھے ہیں اور گذشتہ عشرے میں، ہم زیریں صحارا کے ملکوں کے ساتھ ٹھوس تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہم نے ان علاقوں تک امداد پہنچانے کی پُرخلوص کوشش کی ہے‘‘۔
ترکی کے ایک سابق اعلیٰ سفارتکارسلنان علجن، جو استنبول میں قائم اسٹیڈی سنیٹر فار اکنامکس اینڈ فارن پالیسی کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ترکی کی حکمران ’اے کے‘ پارٹی کے اسلامی رجحانات کی وجہ سے اسے ان عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں آسانی ہوئی ہے جہاں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں نئی حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ افریقہ میں زیریں صحارا کے علاقے میں ترکی کی سفارتی کوششیں، عرب ہمسایوں کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا تسلسل ہیں۔
’’ یہ نئے لوگ جو ان ملکوں کے نئے حکمراں ہوں گے اسلام کے سیاسی پہلو سے وابستہ ہوں گے۔ پس ترکی کے لیے ان ملکوں کی نئی قیادت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے حالات بہت سازگار ہیں۔ جہاں تک افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقوں کا تعلق ہے ترکی کے لیے یہ نیا جغرافیہ ہے جس میں اس کے لیے اقتصادی مواقع میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا ترکی پورے افریقہ میں بڑی تعداد میں نئے سفارت خانے کھول رہا ہے‘‘۔
برِاعظم افریقہ میں نئے سفارت خانے کھولنے کے ساتھ ساتھ ’ٹرکس انٹرنیشنل کوآپریشن اینڈ ڈیولیپمنٹ ایجنسی‘ یا (ٹی آئی کے اے) کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ افریقہ کے لیے ٹرکش ایئر لائنز کی پروازوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں 2010 سے اب تک افریقہ کو ترکی کی برآمدات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
گیلیٹاسیری یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور افریقہ میں اقتصادی ترقی کے ماہر محمیٹ آردار کہتے ہیں کہ ترکی نے بر اعظم افریقہ کے بارے میں بڑی احتیاط سے متوازن حکمت عملی اختیار کی ہے۔
’’ٹرکش ایئر لائن کے پھیلاؤ اور نئے سفارت خانوں کے ساتھ ترک سرمایہ کاروں اور کاروباری لوگوں کو بہت سی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ سرکاری اقدامات، امداد، سفارتکاری اور کاروباری سرگرمیاں، سب ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ یہ سب عالمی سطح پر ترکی کے نئے کردار کا حصہ ہے‘‘۔
آردار اور دوسرے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ زیریں صحارا کے علاقے میں ترکی نے جو سفارتی اور کاروباری اقدامات کیے ہیں، ان کی وجہ سے وہ افریقہ میں چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے مقابلے پر آ گیا ہے۔