ایک زخمی شامی بچے کی چونکا دینے والی تصویر نے شام میں جنگ کی ہولناکی اور المناک صورتحال کی حقیقت کا پردہ فاش کردیا ہے۔
یہ تصویر شامی صحافی کی طرف سے 17 اگست کو لی گئی ہے۔
تصویر میں ایک خوفزدہ بچہ زخمی حالت میں ایمبولینس کی سیٹ پر تنہا بیٹھا ہے اس کا معصوم چہرہ خون آلود ہے اور جسم گرد اور دھول مٹی سے اٹا ہوا ہے، جبکہ اس کے ماں باپ کا کوئی پتا نہیں۔
بچے کی تصویر اور ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وسع پیمانے پر شیئر کیا گیا اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی اس فوٹیج نے لوگوں کے دلوں میں شام کے بحران کے حوالے سے غم و غصہ پیدا کیا ہے۔
حکومت مخالف شامی باغیوں کے حلب میڈیا سینٹر نے بچے کی شناخت اومران داگنیش کے نام سے کی ہے جو بدھ کے روز حلب کے علاقے قطرجی میں ملٹری بمباری کے نتیجے میں زخمی ہوگیا تھا۔
باغیوں کے حامی میڈیا سینٹر کی طرف سے بدھ کی شب یو ٹیوب پر زخمی بچے کی ویڈیو فوٹیج کا اشتراک کیا گیا ہےجس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر ملبے سے زندہ بچ جانے والے بچے کو اٹھا کر ایمبولینس کی پچھلی نشست پر بٹھاتا ہے اور پھر دوسرے زخمیوں کو لانے کے لیے ایمبولینس سے باہر نکل جاتا ہے۔
اس فوٹیج کی حیران کن بات یہ ہے کہ کارٹون کے کرداروں والی ٹی شرٹ اور نیکر میں ملبوس زخمی بچہ رو نہیں رہا ہے، بلکہ وہ خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے اور کچھ دیر بعد اپنے ہاتھ سے چہرے کی گرد کو کو صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن، ہاتھوں پر خون دیکھ کر خاموشی سے اسے سیٹ پر صاف کرتا ہے اور واپس اپنے ہاتھ گود میں رکھ لیتا ہے۔
اس کے بعد دو اور بچوں اور ایک زخمی مرد کو بھی ملبے سے نکالا جاتا ہے۔
اومران کی ویڈیو فوٹیج نے شامی مہاجر بچے ایلن کردی کی موت کے سانحے کو بھی پھر سے تازہ کردیا ہے، جس کی بے جان لاش کو گذشتہ سال ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ پایا گیا تھا۔
اور اب اومران کی تصویر نے ایک مرتبہ پھر شام کے بحران کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے، خاص طور پر اس تصویر نے باغیوں کے زیر تسلط شہر حلب میں شامیوں کی حالت زار کی تصویر کشی کی ہے۔
شام کے المیہ کی منہ بولتی تصویر اومران داگنیش
اس غیر معمولی ویڈیو فوٹیج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے پانچ سالہ اومران داگنیش سکتے کی حالت میں ہو۔ اسے اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں کچھ نہیں پتا ہے۔ حتیٰ کہ اسے اپنے سر پر لگے گہرے زخم کا بھی اندازا نہیں ہے جس سے بہنے والے خون نے بچے کے آدھے چہرے کو ڈھانپ رکھا ہے۔
شامی سول ڈیفینس گروپ کے کارکنوں کے مطابق اومران داگنیش اور تین دوسرے بچوں کو بدھ کے روز شامی افواج کے فضائی حملوں سے تباہ ہونے والی ایک عمارت کے ملبے سے نکالا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق، اومران داگنیش کو علاج کے لیے ایم ٹین اسپتال میں لے جایا گیا جسے پہلے بھی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
فوٹو جرنسلٹ محمد راسلان جنھوں نے یہ پر اثر فوٹیج تیار کی ہے ذرائع کو بتایا کہ فضائی بمباری کے کچھ دیر بعد امدادی کارکن اور صحافی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے جہاں عمارت کے ملبے میں پھنسے لوگوں کو بچانے کی کوششوں میں ہم زخمیوں کو ایک بالکنی سے دوسری بالکنیوں میں منتقل کر رہے تھے تبھی تین بے جان جسموں کی تلاش کے بعد زخمی بچے کو ملبے سے نکالا گیا تھا۔
راسلان کے مطابق اومران اور اس کے تین اور بہن بھائیوں کو بھی ملبے سے زخمی حالت میں نکالا گیا تھا جنھیں گہرے زخم نہیں آئےتھے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو ملبے سے نکالنے کے فورا بعد ہی ان کے اپارٹمنٹ کی عمارت منہدم ہوگئی تھی۔
چھوٹے بچوں کو فوری طور پر ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تھا۔
ایم ٹین کے ڈاکٹروں کے مطابق، فضائی حملے کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 5 بچے بھی شامل ہیں اور 12 زخمی ہوئے ہیں۔
طبی عملے کی طرف سے علاج کےبعد سوشل میڈیا پر اومران کی ایک تصویر جاری کی گئی ہے جس میں اس کی سر پر بینڈیج ہے اور وہ لیٹا ہوا ہے۔ تاہم، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انھیں بچے کے والدین کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
قطرجی کے فضائی حملے میں زخمی ہونے والے چار بچوں ایک عورت اور دو نوجوان مردوں کو بھی ملبے سے نکالا گیا ہے۔
شام کا بحران اور انسانی المیہ
بحران زدہ ریاست شام متعدد تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔ اس ملک میں خانہ جنگی کا آغاز لگ بھگ پانچ برس پہلے حکومت اور اپوزیشن کے مابین اقتدار کی جنگ سے ہوا تھا۔
صدر بشار الاسد کی افواج اور روسی فضائیہ باغیوں کے زیر تسلط شہر حلب سے قبضہ چھڑانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور یہ شہر ہر روز فضائی حملوں کے نشانے پر ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، حلب کے شہر میں اندازاً تین لاکھ افراد فضائی بمباری اور حملوں کے مسلسل خوف کے ساتھ زندگیاں گزار رہے ہیں جبکہ جنوری سے اب تک اندازاً 25 اسپتالوں اور ڈاکٹر کے کلینکس فضائی بمباری کے نتیجے میں جلے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے شام کی حکومت سے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مشرقی حلب کے تباہ حال شہر میں امداد بھیجی جاسکے، جہاں کم ازکم چھ ہفتوں سے کوئی بین الاقوامی امداد داخل نہیں ہوسکی، جس سے اس شہر میں انسانی بحران، بھوک اور بیماریوں کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق، شہر کی ایک تہائی آبادی بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے جسے کیسٹلو روڈ کے ذریعے شہر میں بھیجا جاتا ہے۔ تاہم، امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اب یہ روڈ شامی حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں بند پڑی ہے۔