ترکی نے مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو ) میں فن لینڈ اور سویڈن کی شمولیت کی مخالفت ترک کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ جس کے بعد اب ان دونوں ملکوں کی نیٹو میں شمولیت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اسپین کے شہر میڈرڈ میں منگل کے روز ہونے والے مذاکرات میں تینوں ملکوں نے ایک دوسرے کے تحفظ پر آمادگی کا اظہار کیااور ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں ترکی کے ان دو ممالک کے نیٹو میں شامل ہونے پر ویٹو نہ کرنے کے فیصلے کے بعد کئی ہفتوں سے جاری کشمکش اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
ترکی نے یہ فیصلہ ایسے موقع پر کیا ہے جب میڈرڈ میں نیٹو اجلاس ٘منگل سے شروع ہو گیا ہے جس میں 30 ممالک کے رہنما شرکت کر رہے ہیں۔
ترکی کے فیصلے کے بعد فن لینڈ اور سویڈن جوہری ہتھیاروں سے مسلح نیٹو اتحاد کے رکن بن سکیں گے۔نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینز اسٹولٹنبرگ اور ترکی کے صدارتی محل نے الگ الگ بیانات میں اس حوالے سے ہونے والے معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
فن لینڈ اور سویڈن کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے بعد مبصرین کے مطابق نیٹو کو بحیرہ بالٹک میں عسکری برتری حاصل ہو جائے گی۔
فن لینڈ کے صدر ساؤلی نی نیستا نے ایک بیان میں کہا کہ "ہمارے وزرائے خارجہ نے تین ممالک پر مشتمل ایک میمورینڈم پر دستخط کیے ہیں جس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ ترکی فن لینڈ اور سویڈن کے نیٹو کے رکن بننے کے لیے دی جانے والی دعوت کی حمایت کرے گا۔"
نی نیستا نے بتایا کہ فن لینڈ اور سویڈن کے نیٹو میں شمولیت کے لیے اٹھائے جانے والے ضروری اقدامات کا اگلے دو روز میں تعین کیا جائے گا۔
یورپ کے شمالی خطے جسے نورڈک خطہ بھی کہا جاتا ہے، میں پہلے ہی ڈنمارک، ناروے اور تین مزید بالٹک ممالک نیٹو کے رکن ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سویڈن کی گزشتہ کئی عشروں سے نیٹو اتحاد میں شمولیت کی مخالفت بھی دم توڑ گئی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اس معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے۔
بائیڈن نے ٹوئٹر پر سویڈن اور فن لینڈ کے نیٹو میں داخلے کی دعوت کو اہم اقدام قرار دیا جو نیٹو اتحاد کو مضبوط کرنے میں مدد دے گا۔
اس سے پہلے منگل کو ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس سے قبل ترکی نے خبردار کیا تھا کہ وہ ان دونوں ممالک کی نیٹو کی رکنیت کو ویٹو کے خطرے کو ختم کرنے کے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ایردوان کے اعلیٰ ترین مشیر ابراہیم قالن نے اتوار کو ترک ٹی وی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سلسلے میں ترکی کے مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں۔
مشیر نے کہا تھا کہ ترکی نے مذاکرات کو ایک خاص موڑ پر پہنچا دیا ہے اور ترک رہنماؤں کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ترک سفارت کاروں نے یہ بات اپنے ہم منصبوں کو بتائی اور واضح کیا تھا کہ اس ضمن میں اب اگلے مرحلے کا دارو مدار ان پر ہے۔
خیال رہے کہ صدر ایردوان چاہتےتھے کہ سویڈن اور فن لینڈ کے وائے پی جی نامی گروپ سے منسلک شامی کرد جنگجوؤں کی حمایت ختم کر دیں کیوں کہ یہ گروپ 'پی کے کے' نامی تنظیم سے منسلک ہے جو دہائیوں سے ترک افواج کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ترک حکومت 'پی کے کے' کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز ' سے لیا گیا ہے۔