رسائی کے لنکس

ترک انتخابات اور داعش کے خلاف جنگ کے امکانات


ترکی کے شہر دیارباقر میں داعش کے خلاف پولیس آپریشن
ترکی کے شہر دیارباقر میں داعش کے خلاف پولیس آپریشن

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اتوار کو ترکی کی حکمران جماعت کی الیکشن میں کامیابی سے علاقے میں داعش کے خلاف لڑائی میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم یہ لڑائی سیاسی طور پر پیچیدہ ہو گی۔

ترکی نے ایک سیاسی جماعت کے دفتر پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں داعش کے نو مشتبہ ارکان کو گرفتار کرلیا ہے۔

علاقائی گورنر کے دفتر سے منگل کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق پولیس نے ترکی کے جنوب مشرقی شہر گازیانتپ میں ایک کار کا پیچھا کر کے دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا اور اس کے بعد چھاپوں میں سات مزید مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ایک عدالت نے پولیس کو مشتبہ شدت پسندوں کا جسمانی ریمانڈ دے دیا ہے۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اتوار کو ترکی کی حکمران جماعت کی الیکشن میں کامیابی سے علاقے میں داعش کے خلاف لڑائی میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم یہ لڑائی سیاسی طور پر پیچیدہ ہو گی کیونکہ مبصرین کے بقول شام میں امریکہ اور ترکی کے مقاصد میں تصادم پیدا ہو سکتا ہے۔

الیکشن سے قبل ترک حکومت کو انقرہ میں خود کش دھماکوں پر ترک عوام کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جن میں 102 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس نے داعش کے انسداد کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے جواب میں بم حملوں کا الزام داعش، کرد شدت پسندوں اور شامی انٹیلی جنس پر عائد کیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے خارجہ امور کے رپورٹر ایشان تھرور نے کہا کہ ’’یہ ایک عجیب مفروضہ ہے اور مبصرین کی نظر میں اس میں کوئی دم نہیں، مگر اس سے ترکی میں سیاسی تقسیم کی عکاسی ہوتی ہے۔‘‘

صدر اردوان کی جماعت کی فتح کے بعد مبصرین سوچ رہے ہیں کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کو ترکی میں کرد شدت پسندوں کے خلاف استعمال کریں گے یا ترکی اور شام میں داعش کے خلاف کارروائی کریں گے۔

مبصرین کے بقول شروع میں ترک حکومت نے داعش کی بڑھتی ہوئی طاقت پر اس لیے خاموشی اختیار کیے رکھی کیونکہ اردوان کی پارٹی اسلامی نظریات سے ہمدردی رکھتی ہے اور اسے یہ بھی امید تھی کہ داعش شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے میں مدد کرے گی۔

داعش کی ترکی سمیت پورے خطے میں دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائیوں کے بعد ترکی نے حال ہی میں امریکی اتحاد کے طیاروں کو ترک سرزمین سے پروازوں کی اجازت دی ہے۔

مگر امریکہ اور ترکی کے مقاصد میں اس لیے تصادم پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ شام اور عراق میں کرد شدت پسندوں کو داعش اور صدر بشارالاسد کی فورسز کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے جبکہ ترکی نے حال ہی میں اپنے ملک اور عراق میں کردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔

اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے شام کے کرد جنگجوؤں کی حمایت پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو کہ نیٹو کے دو اتحادی ممالک کے مابین داعش کے خلاف جنگ کے معاملے پر اختلافات کی ایک مثال تھا۔

کرد شدت پسند کئی دہائیوں سے ترک حکومت کے خلاف اپنے حقوق کے لیے مسلح جنگ میں مصروف ہیں۔ رواں سال صدر اردوان نے حکومت اور کردوں کے درمیان 2013 میں طے پانے والا امن معاہدہ ختم کرکے کردوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں۔

ترک حکومت کرد باغیوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہے، جب تک وہ غیر مسلح نہ ہوجائیں۔

XS
SM
MD
LG