واشنگٹن —
ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت عوامی احتجاج کے باوجود استنبول کے مرکزی علاقے میں قائم ایک تاریخی باغ کو ثقافتی مرکز میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد جاری رکھے گی۔
جمعرات کو تیونس کے دورے کے دوران میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیرِاعظم نے دعویٰ کیا کہ منصوبے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں "دہشت گرد گروہ" ملوث ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے مظاہرین میں سات غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
جناب اردگان شمالی افریقہ کے کئی ممالک کے طویل دورے کے بعد جمعرات کی شام وطن واپس پہنچ رہے ہیں جہاں گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے شرکا ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ 10 برسوں سے زائد عرصے سے ترکی پر برسرِ اقتدار اردگان حکومت کے مخالفین کا الزام ہے کہ وہ ملک کی سیکولر شناخت کو مسخ کرنے اور اسلامی نظریات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔
تیونس میں صحافیوں سے گفتگو میں ترک وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ مظاہروں کے پشت پر حزبِ مخالف کی وہ جماعتیں سرگرم ہیں جنہیں عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ترک عوام کی اکثریت مظاہرین کی حمایت نہیں کرتی۔
دریں اثنا حکمران جماعت کے نائب سربراہ حسین سیلک نے پارٹی کارکنوں اور حامیوں پر زور دیا ہے کہ وہ جمعرات کی شام وزیرِاعظم اردگان کی وطن واپسی کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے انقرہ کے ہوائی اڈے پر جمع نہ ہوں۔
امکان ہے کہ حکمران جماعت کو دستیاب عوامی حمایت کے مظاہرے کی غرض سے ترک وزیرِاعظم کے حامی ان کے استقبال کے لیے بڑی تعداد میں ہوائی اڈے پہنچیں گے۔
اس سے قبل بدھ کی رات بھی دارالحکومت انقرہ کے مرکزی علاقے میں جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کی شیلنگ کرنا پڑی تھی۔ اس کے برعکس استنبول میں صورتِ حال نسبتاً پر امن رہی تھی جو حالیہ احتجاجی تحریک کا مرکز رہا ہے۔
بدھ کو مظاہرین کے رہنمائوں نے ترکی کے نائب وزیرِاعظم بلند ارینک کو اپنے مطالبات کی ایک فہرست بھی پیش کی تھی جس میں مظاہرین کےخلاف طاقت استعمال کرنے والے حکام کی برطرفی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی پرتشدد مظاہروں کی حالیہ لہر کے دوران میں اب تک دو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں سیکڑوں مظاہرین زخمی اور گرفتار ہوئے ہیں۔
ترک نائب وزیرِاعظم نے مظاہرین پر پولیس کے تشدد پر معافی بھی مانگی ہے۔
جمعرات کو تیونس کے دورے کے دوران میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیرِاعظم نے دعویٰ کیا کہ منصوبے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں "دہشت گرد گروہ" ملوث ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے مظاہرین میں سات غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
جناب اردگان شمالی افریقہ کے کئی ممالک کے طویل دورے کے بعد جمعرات کی شام وطن واپس پہنچ رہے ہیں جہاں گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے شرکا ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ 10 برسوں سے زائد عرصے سے ترکی پر برسرِ اقتدار اردگان حکومت کے مخالفین کا الزام ہے کہ وہ ملک کی سیکولر شناخت کو مسخ کرنے اور اسلامی نظریات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔
تیونس میں صحافیوں سے گفتگو میں ترک وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ مظاہروں کے پشت پر حزبِ مخالف کی وہ جماعتیں سرگرم ہیں جنہیں عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ترک عوام کی اکثریت مظاہرین کی حمایت نہیں کرتی۔
دریں اثنا حکمران جماعت کے نائب سربراہ حسین سیلک نے پارٹی کارکنوں اور حامیوں پر زور دیا ہے کہ وہ جمعرات کی شام وزیرِاعظم اردگان کی وطن واپسی کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے انقرہ کے ہوائی اڈے پر جمع نہ ہوں۔
امکان ہے کہ حکمران جماعت کو دستیاب عوامی حمایت کے مظاہرے کی غرض سے ترک وزیرِاعظم کے حامی ان کے استقبال کے لیے بڑی تعداد میں ہوائی اڈے پہنچیں گے۔
اس سے قبل بدھ کی رات بھی دارالحکومت انقرہ کے مرکزی علاقے میں جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کی شیلنگ کرنا پڑی تھی۔ اس کے برعکس استنبول میں صورتِ حال نسبتاً پر امن رہی تھی جو حالیہ احتجاجی تحریک کا مرکز رہا ہے۔
بدھ کو مظاہرین کے رہنمائوں نے ترکی کے نائب وزیرِاعظم بلند ارینک کو اپنے مطالبات کی ایک فہرست بھی پیش کی تھی جس میں مظاہرین کےخلاف طاقت استعمال کرنے والے حکام کی برطرفی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی پرتشدد مظاہروں کی حالیہ لہر کے دوران میں اب تک دو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں سیکڑوں مظاہرین زخمی اور گرفتار ہوئے ہیں۔
ترک نائب وزیرِاعظم نے مظاہرین پر پولیس کے تشدد پر معافی بھی مانگی ہے۔