رسائی کے لنکس

روشن آسمان میں مدھم ہوتے جھلمل ستارے


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زمین پر جگمگاتی روشنیوں میں اضافہ ہر سال، رات کے وقت آسمان پر روشنی میں اضافہ اور ستاروں کی روشنی کو مدھم تر بنا رہا ہے ۔ یعنی ہم سال بہ سا ل ستاروں کو دیکھنے کا امکان کھو رہے ہیں۔

جمعرات کو جریدے سائنس میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زمین پر انسانوں کی جانب سے پھیلائی گئی مصنوعی روشنی ہر سال رات کو آسمان پر روشنی میں تقریباً دس فیصد اضافہ کر رہی ہے۔

2011 سے 2022 تک کے اعداد و شمار کے تجزئے پر مبنی اس ریسرچ میں جس میں پچاس ہزار سے زیادہ ،ستاروں کا شوقیہ مشاہدہ کرنے والوں کا ڈیٹا شامل کیا گیاتھا معلوم ہوا کہ یہ تبدیلی اس سے کہیں زیادہ تیز رفتار سے ہورہی ہے جس کا اندازہ ، سائنس دانوں نے اس سے قبل سیٹلائٹ ڈیٹا کو دیکھ کر لگایا تھا۔

یونیورسٹی آف سین ٹیاگو ڈی کمپوسٹیلا کے ماہر طبیعیات فیبیو فالچی نے جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، بتایا کہ ہم سال بہ سال ستاروں کو دیکھنے کا امکان کھو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اب بھی آسمان پر مدھم ترین ستارے دیکھ سکتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی بہت تاریک جگہ پر ہیں۔ لیکن اگر آپ صرف سب سے زیادہ روشن ستاروں کو دیکھ رہے ہیں ، تو آپ ایسی جگہ پر ہیں جہاں زمین پر مصنوعی روشنیاں زیادہ پھیلی ہوئی ہیں یعنی ایسی جگہ جہا ں روشنی کی آلودگی زیادہ ہے ۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

س ریسرچ کے مصنفین کہتے ہیں کہ جیسے جیسے شہر پھیلتے ہیں اور مزید روشنیاں جگمگاتی ہیں ، آسمان کی چمک اور مصنوعی جھلمل ، جیسا کہ مطالعہ کے مصنفین کہتے ہیں، زیادہ شدید ہوتی جاتی ہے۔

پوٹسڈیم میں جرمن ریسرچ سینٹر برائے جیو سائنسز کے ایک مطالعہ کے شریک مصنف اور طبیعیات دان کرسٹوفر کیبا کا کہنا تھا کہ آسمان پر رات کے وقت روشنی میں دس فی سالانہ تبدیلی "میری توقع سے بہت بڑی ہے اور یہ تبدیلی ایسی ہے جسے آپ اپنی پوری ی زندگی میں واضح طور پردیکھ سکیں گے۔

کیبااور ان کے ساتھیوں نے کہا اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جب ایک بچہ پیدا ہو اور آسمان پر 250 ستاروں کو رات میں واضح طور دیکھا جا سکتا ہو لیکن جب یہ بچہ 18 سال کا ہو جائے ، تب آسمان پر صرف 100 ستارے دیکھے جا سکتے ہوں۔

کیبا کا کہنا تھا کہ آسمان پرمصنوعی روشنی کی یہ آلودگی حقیقی آلودگی ہے جو لوگوں اور جنگلی حیات کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پالیسی ساز مصنوعی روشنی کی آلودگی کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔ کچھ علاقوں نے اس روشنی کی مقدار کی حدودمقرر کر دی ہیں۔

مصنوعی روشنی کی آلودگی پر اس سے قبل کی ریسرچز جن میں زمین کی رات کے وقت لی گئی سیٹلائٹ تصاویر استعمال کی گئی تھیں ، اندازہ لگایا گیا تھا کہ آسمان کی روشنی میں ہر سال تقریباً 2 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

لیکن ان ریسرچز میں استعمال ہونےوالے سیٹلائٹس ایل ای ڈی بلب سے خارج ہونےوالی نیلی روشنی سمیت نیلے رنگوں کی حامل روشنی کا پتہ نہیں لگا سکے۔

محققین کے مطابق، پچھلی دہائی میں امریکہ میں لگائی گئی نئی آؤٹ ڈور لائٹس میں سے نصف سے زیادہ ایل ای ڈی لائٹس ہیں۔

کیبا نے کہا کہ سیٹلائٹ اوپر کی طرف جاتی روشنی کا پتہ زیادہ بہتر طور پر لگا سکتے ہیں مثلاً سپاٹ لائٹ بہ نسبت افقی روشنی کےمثلا رات کے وقت روشن ایک بل بورڈ کی جگمگاہٹ ۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

جارج ٹاؤن کے ماہر حیاتیات ایملی ولیمز، جو اس مطالعہ کا حصہ نہیں تھیں کہتی ہیں کہ آسمانی روشنی جسم کی بدلتی ہوئی حالتوں اور زندگی کی دیگر اقسام کو بھی متاثر کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نقل مکانی کرنےوالےپرندے رات کو اسمان پر سفر کرتے ہوئے عام طور پر ستاروں کی روشنی سے اپنے راستوں کا پتہ چلاتے ہیں اور جب سمندری کچھوے کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہ روشنی کی مدد سے سمندر کا رخ کرتے ہیں اور ان کے لیےروشنی کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف سینٹیاگو کے ماہر طبیعیات فالچی کہتے ہیں کہا کہ جو کچھ کھویا جارہا ہے وہ ایک عالمگیر انسانی تجربہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رات کا آسمان، ہم سے پہلے کی تمام نسلوں کے لیے، آرٹ، سائنس اور ادب کےلیےتحریک کا ذریعہ رہا ہے۔

اس ریسرچ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG