لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے انٹرنیٹ کے ذریعے توہین مذہب کے الزام میں دو مسیحی بھائیوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ دونوں افراد پر تمام الزامات ثابت ہوگئے ہیں اور ان کے لیپ ٹاپ سے توہین آمیز مواد بھی برآمد ہوا۔ جب کہ ملزمان کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں ذاتی دشمنی پر انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لہذٰا سزا کے خلاف وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس راجہ شاہد محمود عباسی اور جسٹس محمد طارق ندیم پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سنایا۔
جسٹس راجہ شاہد محمود عباسی اور جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے مجرموں کی اپیلوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد تین مارچ 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔عدالت کا کہنا تھا کہ دونوں افراد اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے اور موجود شواہد سے 295 سی ثابت ہوتی ہے لہذا سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت توہین مذہب کے الزامات پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور الزام ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔
مسیحی بھائیوں کے خلاف مقدمہ ہے کیا؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے مسیحی بھائیوں قیصر ایوب اور امون ایوب پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ویب سائٹ بنائی جس پر توہین آمیز مواد شئیر کیا جاتا تھا۔
مدعی مقدمہ کے مطابق اس ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مواد کے حوالے سے پنجاب میں تلہ گنگ کے ایک شہری محمد سعید نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو درخواست دی۔ ایف آئی اے نے اپنی تحقیق کے بعد پولیس کوکیس درج کرنے کا کہا اور 2011 کو ان کے خلاف 295 سی کے تحت ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
مدعی محمد سعید کے وکیل ملک طارق ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد پنجاب پولیس کو رپورٹ دی تھی۔
اُن کے بقول تین مختلف افسران نے تحقیقات کی تھیں اور ملزمان کے قبضہ سے ملنے والے لیپ ٹاپ میں موجود تمام توہین آمیز مواد کا ان افراد سے منسلک ہونا ثابت ہوا تھا۔
ملک طارق نے دعویٰ کیا کہ ملزمان کئی مرتبہ بیرون ملک کا سفر کرچکے ہیں اور اس بارے میں دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ دونوں بھائی توہین آمیز خاکے بنانے کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔
ان دونوں بھائیوں میں سے قیصر ایوب کو 11 نومبر 2014 اور امون ایوب کو مبینہ طور پر بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے 17 اپریل 2015 کو لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی اقبال بسال کی عدالت میں مقدمہ چلا جس کے بعد 13 دسمبر 2018 کو انہیں سزائے موت سنا دی گئی تھی۔
'دونوں بھائیوں کا ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا گیا'
ملزمان کے وکیل طاہر بشیر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دونوں افراد کے خلاف عائد تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ دونوں بھائیوں پر ذاتی جھگڑے کی وجہ سے شکایت دہندہ کو استعمال کرتے ہوئے مقدمہ بنایا گیا۔ ان دونوں بھائیوں کا توہین آمیز مواد کی ویب سائٹ سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو وہ اس کے مالک ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی یہ ویب سائٹ استعمال کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رُجوع کیا جائے گا۔
اس کیس میں سیشن کورٹ سے سزا ملنے کے بعد قیصر ایوب کی اہلیہ آمنہ قیصر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں مجھے جان سے نہ مار دیا جائے۔ میں دبئی چلی گئی اور لوگوں کے گھروں میں کھانا پکا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتی اور اپنے شوہر کا مقدمہ لڑتی ہوں۔
اُن کے بقول "میں نے ابھی تک اپنے بچوں کو نہیں بتایا کہ ان کے باپ کو سزائے موت ہو گئی ہے۔ میرے بچے یہ غم برداشت نہیں کر سکیں گے۔ میں اپنے بچوں کو پاکستان سے لینے آئی ہوں، کیونکہ اب مجھے اُن کی جان کی بھی فکر ہے۔"
توہین مذہب کے الزام میں کتنے افراد قید ہیں
غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار سوشل جسٹس کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ توہینِ مذہب کیسز میں گرفتار افراد کی درست تعداد بتانا ممکن نہیں کیونکہ بہت سے کیسز میں لوگ خاموشی سے انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "لاہور جیل میں توہینِ مذہب کے ملزمان کے لیے ایک الگ سیل بنا دیا گیا تھا اور وہاں 70 افراد موجود تھے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تعداد سینکڑوں میں ہوسکتی ہے، ہماری اطلاعات کے مطابق ایسے کیسز کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد ہے۔'
پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ ہمارے اعداد وشمار کے مطابق توہین مذہب کے 50 فی صد کیسز مسلمانوں اور 50 فی صد مذہبی اقلیتوں کے خلاف بنتے ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد ملک کی کل آبادی کا محض 3.5 فی صد ہے، لہذٰا مسیحیوں، احمدیوں یا دیگر مذاہب کے خلاف مقدمات کے اندراج کی شرح بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتیں بہت احتیاط کرتی ہیں کیونکہ اگر ان کے خلاف ایسا کوئی کیس بنے تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے ہماری معلومات کے مطابق زیادہ تر کیسز صرف دشمنی، حسد اور دیگر معاملات پر دائر کیے جاتے ہیں۔
قیصر ایوب اور امون ایوب کے خلاف کیس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کیس میں سائبر کرائم قوانین کے تحت مقدمہ بنا۔ اس میں کوئی ای میل یا پوسٹ جس شخص کو موصول ہوئی اس کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بیشتر کیسز میں سپریم کورٹ جاکر انصاف ملتا ہے لیکن اس قدر طویل عرصہ میں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر جاتا ہے۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان توہینِ مذہب کے مقدمات میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو ملکی آئین کے تحت مساوی حقوق حاصل ہیں، لہذٰا کسی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اگر ایسی کوشش ہوتی ہے تو ریاست کا قانون حرکت میں آتا ہے۔