خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کرچکی ہے۔ دھماکے میں جان سے جانے والوں میں دو پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہیں جو بچپن سے ہی دوست تھے اور ایک ہی اسکول میں ساتھ تعلیم حاصل کی تھی۔
پولیس لائنز مسجد میں پیر کو ہونے والے خودکش حملے میں زخمی ہونے والے 49 افراد پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زیرِعلاج ہیں۔ اسپتال کے ترجمان عاصم خان کے مطابق ان میں سے سات افراد کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جو اس وقت انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیرِعلاج ہیں۔
اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق ضلع چارسدہ سے بتایا جاتا ہے جب کہ ہلاک ہونے والے دیگر پولیس اہلکاروں کا تعلق لکی مروت، مردان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور صوابی کے علاقوں سے ہے۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والے دو دوست
پشاور دھماکے میں ہلاک پولیس اہلکاروں میں افتخار علی اور ابن آمین بھی شامل ہیں جو گزشتہ تیس سال سے دوست تھے۔ ان کا تعلق چارسدہ کی تحصیل تنگی کے علاقے امیر آباد سے تھا۔ ان دونوں نے ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور خیبرپختونخوا پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئے۔ ان دونوں دوستوں کی نمازِ جنازہ بھی ایک وقت میں ادا کی گئی جب کہ ان کی قبریں بھی ساتھ ساتھ ہیں۔
دونوں دوستوں کے ایک اور قریبی دوست جمیل خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افتخار علی اور ابن آمین نے ایک ہی اسکول سےایک ساتھ تعلیم حاصل کی تھی لیکن وہ مختلف اوقات میں پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔
ان کے بقول افتخار علی 2011 کے اواخر میں جب کہ ابن آمین 2015 میں پولیس میں بھرتی ہوئے۔اس دوران دونوں محکمۂ پولیس کے مختلف اسٹیشن پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ مگر چند ہفتے قبل دونوں مختلف اسائنمنٹ کے لیے اکٹھے پولیس لائنز میں تعینات ہوئے تھے۔
جمیل خان کے مطابق ابن آمین نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور کم سن بیٹے جب کہ افتخار علی نے ایک بیوہ اور دو بچیوں کو چھوڑا ہے۔ افتخار علی کی دو بہنیں اور چار بھائی ہیں جب کہ ابن آمین کے دو بھائی اور ایک بہن حیات ہے۔ ابن آمین کے والد بھی محکمۂ پولیس میں افسر کے طور پر کام کررہے ہیں۔
ان کے بقول افتخار علی کا ایک اور بھائی شکیل خان جو اسکول اسکاؤٹس میں تھا، پہلے ہی ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہو چکا ہے۔
جمیل خان نے کہا کہ چارسدہ کی تحصیل تنگی کے علاقے امیر آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر پولیس اہلکار گل شرف بھی پولیس لائنز کے خودکش حملے میں ہلاک ہوئے ہیں ۔ گل شرف ایلیٹ پولیس فورس کے اہلکاروں کو تربیت دینے کے فرائض انجام دیتے تھے۔
پشاور پولیس کے ایک سینئر عہدیدار کمال حسین کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن آمین کے ساتھ پیر کو بنائی گئی سیلفی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن آمین نمازِظہر کے لیے جا رہا تھا اور یہ اس کے ساتھ آخری تصویر تھی۔
جمیل خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان تینوں اموات پر نہ صرف تین گھرانوں بلکہ امیر آباد علاقے کے سینکڑوں گھرانیں سوگوار ہیں۔
افتخار علی کے بھائی بہار علی اور گاؤں کے دیگر افراد نے ذرائع ابلاغ کےنمائندوں سے بات کرتے واقعے کی مذمت کی ہے اور حکومت سے دہشت گردی کے واقعات روکنے کی اپیل کی ہے۔