پاکستان کے معروف عالمِ دین مفتی تقی عثمانی کے قافلے پر قاتلانہ حملے میں ان کے دو محافظ ہلاک ہوگئے ہیں۔ واقعے میں تقی عثمانی اور ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ان کے اہلِ خانہ محفوظ رہے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق واقعہ کراچی کے علاقے نیپا چورنگی پر اس وقت پیش آیا جب تقی عثمانی نمازِ جمعہ کی امامت کے لیے جا رہے تھے۔
کراچی پولیس کے سربراہ ڈاکٹر امیر شیخ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ چار حملہ آور دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے جنہوں نے پہلے تقی عثمانی کی گاڑی کے پیچھے آنے والی گاڑی پر فائرنگ کی جس میں ان کے محافظ سوار تھے۔
فائرنگ سے گاڑی میں سوار تقی عثمانی کا ذاتی محافظ صنوبر خان ہلاک ہوگیا جب کہ گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہوا۔
حملہ آوروں نے محافظوں کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے بعد مفتی تقی عثمانی کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی جس سے گاڑی میں سوار ان کا پولیس محافظ ہلاک جب کہ ڈرائیور زخمی ہوگیا۔
لیکن زخمی ہونے کے باوجود ڈرائیور گاڑی کو موقع سے بھگا لے جانے اور گلشنِ اقبال میں واقع ایک نجی اسپتال پہنچنے میں کامیاب رہا۔
پولیس کے مطابق گاڑی کی پچھلی نشست پر مفتی تقی عثمانی، ان کی اہلیہ اور دو پوتے سوار تھے جو فائرنگ میں معجزانہ طور پر محفوظ رہے ہیں۔
ڈاکٹر امیر شیخ کے مطابق حملہ آوروں کا نشانہ مفتی تقی عثمانی ہی تھے اور انہوں نے دونوں گاڑیوں کو اس امید پر نشانہ بنایا کہ تقی عثمانی ان میں سے کسی میں بھی سوار ہوسکتے ہیں۔
اسپتال ذرائع کے مطابق دونوں گاڑیوں کے زخمی ڈرائیورز کو طبی امداد دی جا رہی ہے اور ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔
مفتی تقی عثمانی کا شمار پاکستان کے معروف علما میں ہوتا ہے جو کراچی میں واقع معروف دینی درس گاہ جامعہ دارالعلوم کراچی سے منسلک ہیں۔
اسلامک بینکنگ پر اپنے تحقیقی کام کی وجہ سے مشہور تقی عثمانی کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ماضی میں وفاقی شرعی عدالت کے جج بھی رہ چکے ہیں۔