رسائی کے لنکس

بی جے پی رہنماؤں کے متنازع بیانات پر بھارت میں ہنگامے، دو افراد ہلاک


بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو رہنماوں کی جانب سے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات پر احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کے دوران دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

بھارت کی ریاست جھارکھنڈ کے شہر رانچی میں مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا۔ پتھراؤ میں ملوث ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ہوائی فائرنگ بھی کی ہے۔

رانچی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (دیہات) نوشاد عالم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رانچی میں احتجاج کے دو ران دو مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔اس کے علاوہ پتھراؤ سے زخمی ہونے والے متعدد زخمی اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

نوشاد عالم نے بتایا کہ مظاہرین کے پتھراؤ سے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سریندر جھا بھی زخمی ہو ئے ہیں۔ حالات کشیدہ ہونے پر انتظامیہ نے متاثرہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔

بھارتی پولیس ذرائع کے مطابق ریاست اترپردیش کے مختلف علاقوں میں بھی احتجاج کے دوران 136 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن میں سہارنپور سے 45، الہ آباد سے 37، امبیڈکر نگر سے 23، ہاتھرس سے 20، مرادآباد سے سات اور فیروزآباد کے چار افراد شامل ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں اضافی نفری تعینات ہے جب کہ اب حالات قابو میں ہیں۔

مغربی بنگال کے ہاوڑہ علاقے میں ہفتے کی صبح بھی مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کے مطابق پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ ہاوڑہ ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے جب کہ متاثرہ مقام پر انٹرنیٹ سروس بھی پیر تک معطل کی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی نے ہفتے کو کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں فساد کرانا چاہتی ہیں۔ لیکن اسے برداشت نہیں کیا جائے گا اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ بی جے پی کے مبینہ گناہ کی سزا عوام کیوں بھگتیں؟

ٹی وی مباحثوں کے بائیکاٹ کی اپیل

بھارتی مسلمانوں کے مشترکہ پلیٹ فارم 'آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ' نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے تمام اسلامی اسکالر اور دانش وروں سے اپیل کی ہے کہ وہ ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں شرکت نہ کریں کیوں کہ ان مباحثوں کا مقصد مبینہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کی توہین کرنا ہے۔

بورڈ کی جانب سے یہ اپیل بی جے پی کے دو رہنماوں نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے متنازع بیانات کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران کی گئی ہے۔

بیان کے مطابق اگر مسلم علما ان مباحثوں کا بائیکاٹ کریں گے تو نہ صرف ان چینلز کی ٹی آر پی (ریٹنگ) میں گراوٹ آئے گی بلکہ ان کا مقصد بھی ناکام ہو جائے گا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن اور کمیٹی برائے تحفظ مذہبی و ثقافتی حقوق کے کنوینر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کے مطابق ایسے متعدد نشریاتی ادارے ہیں جن کا مقصد مباحثے کی مدد سے کسی مسئلے کو سمجھنا اور کوئی نتیجہ برآمد کرنا نہیں بلکہ ان کا مقصد مذہبی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کرنا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ نشریاتی ادارے اسی طرح اسلام اور مسلمانوں کی توہین کرتے ہیں جیسے کہ نوپور شرما نے کیا۔ نوپور شرما نے پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع بیان دے کر صرف بھارتی مسلمانوں کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

ان کے مطابق مسلم عوام کی جانب سے بھی ایک عرصے سے ان ٹی وی مباحثوں کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی جا رہی ہیں لیکن کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے مزید کہا کہ پرسنل لا بورڈ اور دیگر سرکردہ شخصیات نے مسلمانوں سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ وہ ان نیوز چینلوں کو دیکھنا بند کر دیں۔ان کے بقول جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے نمائندے یا اسلامی اسکالر کی حیثیت سے ان چینلوں کے مباحثے میں شریک ہوتے ہیں ان میں سے کسی نے بھی ابھی تک بورڈ کی اس اپیل پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور جمعیتِ علمائے ہند سمیت کئی مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے پرسنل لا بورڈ کی اپیل کی حمایت کی ہے۔

صحافی برکھا دت نے ایک ٹویٹ میں موجودہ ٹی وی مباحثوں کی مذمت کی ہے جس پر پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ان مباحثوں کا مقصد اپنی ریٹنگ میں اضافہ کرنا ہے۔

یاد رہے کہ ایسے سنجیدہ مسلم دانش وروں اور علما کی بڑی تعداد ہے جنہوں نے ان ٹی وی مباحثوں میں شریک ہونا بند کر دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد میڈیا اداروں کی جانب ے دوسرے صاحبِ ریش افراد کو اسلامی اسکالر کی حیثیت سے بلانا شروع کر دیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG