رسائی کے لنکس

وفاقی بجٹ: ' وزیرِ خزانہ کو اُونچا بولنا پڑا اور نہ ہی بجٹ کاپیاں پھاڑی گئیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وہ افراد جو ہر سال بجٹ کی تقریر پریس یا مہمانوں کی لابی سے دیکھتے آۓ ہیں وہ جانتے ہیں کہ بجٹ اجلاس بہت سی وجوہات کی بنا پر ایک غیر معمولی اجلاس سمجھا جاتا ہے۔ اس دن حزب اختلاف بہت متحرک ہوتی ہے اور شور شرابے میں وزیرِ خزانہ کے لیے اپنی تقریر مکمل کرنا چیلنج ہوتا ہے۔

لیکن اس بار وفاقی بجٹ پیش کرنے کے دوران پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایسا کچھ نہیں تھا، مجھ جیسے اور صحافی جو اپوزیشن کے شور شرابے میں بجٹ کور کرنے کے عادی ہیں, اجلاس کے آغاز پر سمجھ چکے تھے کہ آج وزیرِ خزانہ بغیر کسی خلل کے اپنی تقریر مکمل کر لیں گے۔

یاد رہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریکِ انصاف کے اراکین اسمبلی رُکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔

اس اجلاس میں نہ تو اپوزیشن اراکین کو وزیرِ خزانہ کا گھیراؤ کرتے دیکھا گیا اور نہ ہی بجٹ کی کاپیاں پھاڑی گئیں اور باآسانی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل اپنی بجٹ تقریر کرتے رہے، بلکہ اہم نوعیت کے اعلانات پر اُن کے ساتھی اراکین ڈیسک بجا کر اُنہیں داد بھی دیتے رہے۔

آج اپوزیشن بینچز کی خالی کرسیوں کی جگہ پر سکوت طاری تھا جب کہ بجٹ کی کچھ کاپیاں جو اپوزیشن اراکین کے لیے ڈیسک پر رکھی جانی تھیں وہ ایک طرف رکھی گئی تھیں۔

روایتی طور پر مہمانوں کی گیلری بھی کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں، لیکن جمعے کو وہ بھی خالی پڑی تھیں۔

بجٹ تقریر شروع ہوئئ تو مفتاح اسماعیل کے دائیں جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف اپنے مخصوص انداز میں چہرے پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔ مفتاح اسماعیل کی دوسری جانب پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ بیٹھے دکھائی دیے۔

تقریر کے دوران وزیر خزانہ سانس لینے کے لیے رکتے تو ادھر ادھر نظر ضرور ڈالتے جہاں ان کی اپنی ہی پارٹی کے ارکان دکھائی دیتے, جب کہ صحافی جو تقریر کے شروع میں معمول کے مطابق پریس گیلری میں آ کر بیٹھ چکے تھے۔ آدھے خالی ایوان میں وزیر خزانہ کی گونجتی آواز کو سنتے ہوئے کچھ صحافی اُٹھے اورباہر لابیز میں آرام دہ صوفوں پر آ کر بیٹھنے لگے جہاں بڑی اسکرینز پر اجلاس کی کارروائی دکھائی جا رہی تھی۔

اجلاس کی کوریج کے لیے آئے فوٹو گرافرز بھی ایکشن کے بغیر اس اجلاس کی کارروائی پر بور دکھائی دیے۔

بجٹ تقریر کے دوران حکومتی بینچز کی پچھلی نشستوں پر بیٹھے ارکان فونز پر مصروف نظر آ رہے تھے جو یا تو کبھی فون اسکرین دیکھ کر مسکرا دیتے تو کبھی سنجیدگی سے اپنے فونر پر کچھ ٹائپ کرتے نظر آتے۔

جب اپوزیشن ایوان میں موجود ہوتی تھی تو اسپیکر کا کام بھی بڑھ جاتا تھا اور وہ بار بار ہاؤس ان آرڈر کی ہدایت کرتے رہتے تھے، لیکن آج کے اجلاس میں اسپیکر راجہ پرویز اشرف بھی خاموشی سے وزیرِ خزانہ کی بجٹ تقریر سنتے رہے۔ اپوزیشن کی موجودگی میں بار بار خلل کی وجہ سے وزرائے خزانہ کو اپنی تقریر مکمل کرنے میں بہت وقت لگتا تھا، لیکن اس بار اپوزیشن کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی تقریر ایک گھنٹے سے کچھ زائد وقت میں مکمل کر لی۔

اجلاس ختم ہونے پر وزرا اور ارکان باہر جاتے دیکھے جا سکتے تھے جہاں انہیں میڈیا ارکان کا سامنا تھا۔ ہر حکومت کی طرح وہ بھی یہی یقین دلا رہے تھے کہ بجٹ عوام دوست ہے۔ اجلاس کے اختتام پر ڈیوٹی پر تعینات رینجرز اور اسلام آباد پولیس کی نفری بھی اپنی بسوں کی جانب جاتی نظر آئی ۔

بہت سے صحافیوں اور سرکاری اہل کاروں کے لیے یہ بجٹ شاید سب سے زیادہ اس لیے یاد گار ثابت ہو گا کیونکہ کسی نے بھی اتنی خاموش میں کی جانے والی بجٹ تقریر نہیں سنی اور نہ ہی کبھی حذب اختلااف کی اتنی کرسیاں خالی دیکھی ہیں۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG