رسائی کے لنکس

کراچی کی ایک چھت سے فلک کے انوکھے نظارے


محمد مہدی حسین اور ڈاکٹر اکبر حسین نے بذات خود اسی چھت سے دو سال پہلے ایک ایسا نادر اور قدرتی مشاہدہ بھی کیا تھا، جو اب وہ اپنی ساری زندگی میں دوبارہ نہیں کر سکتے۔۔

بانی پاکستان کے شہر کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں واقع ایک مکان کی چھت انتہائی منفرد اور انوکھی ہے۔ اس چھت پر پاکستان کا سب سے بڑا ٹیلی اسکوپ نصب ہے۔ یہاں سے آپ چاند، مشتری، زہرہ، مریخ اور کہکشاں کے براہ راست نظارے دیکھ سکتے ہیں۔۔ فلکی اجسام کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر خوش آئند بات یہ ہے کہ اس چھت کے نیچے رہنے والے ’کراچی امیچر ایسٹرونومرز سوسائٹی‘ کے روح رواں، محمد مہدی حسین اور ڈاکٹر اکبر حسین نے بذات خود اسی چھت سے دو سال پہلے ایک ایسا نادر اور قدرتی مشاہدہ بھی کیا تھا جو اب وہ اپنی ساری زندگی میں دوبارہ نہیں کرسکتے ۔۔اس روز وینس یعنی مریخ سورج کے سامنے سے گزرا تھا۔ ماہر فلکیات بتاتے ہیں کہ یہ نظارہ اوسطاً 150 سال بعد ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

’چار چاند لگنے‘ کا محاورہ سچ ہوا
آپ نے کسی چیز میں ’چار چاند لگنے‘ کا محاورہ صرف ’سنا ‘ہوگا۔ لیکن، اسی چھت سے حقیقت میں چار چاند لگنے کا نظارہ بھی کیا گیا، جب دو دن پہلے ہی سورج مشتری یعنی جوپیٹر کے عقب سے طلوع ہوا تھا اور اس سبب ایک کے بجائے ’چار چاند‘ نظر آ رہے تھے۔

مہدی حسین اور ڈاکٹر اکبر حسین نے منگل کو وائس آف امریکہ کے نمائندے کو اپنے رہائشی مکان کی چھت پر واقع اس آبزرویٹری یا رسدگاہ اور سوسائٹی کے بارے میں بتایا کہ ’کراچی امیچر ایسٹرونومرز سوسائٹی‘ کا نعرہ ہے ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔۔اور ان جہانوں کا مشاہدہ وہ اس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کرتے ہیں جو ان کی آبزرویٹری ’کاسٹروڈوم‘ میں نصب ہے۔اس ٹیلی اسکوپ سے آسمان پر موجود اجسامِ فلکی کو600 گنا بڑا کر کے دیکھا جاسکتا ہے۔‘

مہدی حسین نے دعویٰ کیا کہ ’یہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹیلی اسکوپ ہے جس کی مدد سے چاند اور دیگر سیاروں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ ٹیلی اسکوپ کے دوا ہم حصے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے ماوٴنٹ جس پر ٹیلی اسکوپ نصب ہوتا ہے، جبکہ دوسرا حصہ او ٹی اے کہلاتا ہے یعنی آٹیکل ٹیوب اسمبلی۔ ماوٴنٹ ٹیلی اسکوپ کے وزن کو سہارتی ہے۔ یہ پولز سے الائن ہوتا ہے۔جب کسی آبجیکٹ کو دیکھا جاتا ہے تو ماوٴنٹ سے جڑا ایک ٹریکنگ میکینزم مسلسل کام کر رہا ہوتا ہے۔ یہ اس آبجیکٹ کو پوائنٹ کرتا ہے جسے ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ آبجیکٹ کو ویو میں رکھتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ ٹریک کرتا ہے۔‘

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت میں کہا کہ ’مثال کے طور پر ہم اگر کسی سیارے کو دیکھ رہے ہوں تو یہ سیارے کی حرکت کے ساتھ ساتھ اس کی سمت میں آگے بڑھتا ہے کیوں کہ زمین مسلسل گردش کرتی رہتی ہے، اسی لئے آبجیکٹ بھی حرکت میں ہوتا ہے۔ ہم جو ماوٴنٹ استمال کررہے ہیں وہ پاکستان کا سب سے بڑا ماوٴنٹ ہے۔ البتہ ٹیلی اسکوپ اس سے زیادہ قطر کی بھی یہاں موجود ہیں۔ ہماری سوسائٹی کے ایک ممبر ہیں ان کے پاس بھی ایک اسی قسم کی بڑے قطر والی ٹیلی اسکوپ موجود ہے لیکن اس میں ماوٴنٹ نہیں ہوتا وہ براہ راست زمین پر رکھی جاتی ہے۔‘

’ٹیلی اسکوپ کے ساتھ دو کمپیوٹر بھی کنکٹ ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں جوپیٹر تک جانا ہو تو یہ کمپوٹر کے ساتھ کنکٹ کردہ ’گو میکنزم‘ کے ڈیٹا کی مدد سے ہمیں جوپیٹر کی لوکیشن پتہ چلتی ہے کہ وہ کہاں موجود ہے۔ دوسرا کمپیوٹر کیمرے کے ساتھ کنکٹ ہوتا ہے۔ جو کیمرے کی آنکھ آبجیکٹ کا مشاہدہ کر رہی ہوتی ہے اس کی تصویر اس کمپوٹر کے ذریعے پروجیکٹر تک پہنچتی ہے اور پروجیکٹر اس تصویر یا امیج کو بڑاکرکے دیوار پر اسے ظاہر کردیتا ہے۔ یہ دیوار آبزرویٹری کی چھت کے نیچے یا کہیں بھی ہوسکتی ہے۔‘

انہوں نے مستقبل کے حوالے سے بتایا ’مستقبل میں ہمارا ارادہ ہے کہ جب بھی اس قسم کی آبزویشن کریں اسے لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے انٹرنیٹ پر پیش کریں، تاکہ عام لوگ گھر بیٹھے فلک کے قدرتی نظاروں کا مشاہدہ کرسکیں۔‘

وی او اے کے استفسار پر ڈاکٹر اکبر حسین نے بتایا ’ٹیلی اسکوپ میں ایک پرائمری مرر ہوتا ہے۔ ہمارے ٹیلی اسکوپ میں جو مرر لگا ہے اس کا سائز ساڑھے بارہ انچ قطر ہے۔ یہ ہائی کوالٹی ایفی شینٹ مرر ہے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر فلکیات ڈیوڈ ریپلج نے یہ مرر انہیں تحفے میں دیا تھا۔یہ مرر لنکاشائر برطانیہ کی آبزرویٹری میں لگے ٹیلی اسکوپ میں نصب تھا۔‘

مہدی حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کراچی یونیورسٹی میں بھی ایک آبزرویٹری موجود ہے اور اس پر بھی ایک ٹیلی اسکوپ لگا ہوا ہے۔ لیکن، وہ مسلسل فعال نہیں رہتا۔ ہمارا ٹیلی اسکوپ کا میکنزیم ان سے بہت ایڈوانس ہے۔ اس کا ماوٴنٹ، اس کی آپٹکس بہت اچھی ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم ان کے ساتھ ملکر کام کریں کیوں جس جگہ وہ ٹیلی اسکوپ نصب ہے وہ ایک پہاڑی نما اور مشاہدے کے لئے آئیڈل مقام ہے۔‘

محمد مہدی حسین کے مطابق، وہ اسلام آباد میں واقع ’انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی‘ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’یہ بھی ایک ایسٹرونومیکل سوسائٹی بھی ہے۔ ہم متواتر ایک دوسرے سے ٹچ میں رہتے اور معلومات شیئر کرتے ہیں۔ انہوں نے کچھ ٹیلی اسکوپس بھی حاصل کرلی ہیں اور اس میں ہم نے انہیں بھرپور مدد دی ہے۔ہم اسے مزید شہروں تک پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا ’چاند کا مشاہدہ ہمارا معمول ہے۔ ہم جوپیٹر، مارس، وینس بھی آبزور کرتے رہتے ہیں۔ دو روز پہلے ہی ہم نے جوپیٹر کو آبزور کیا تھا۔ اس دن چاند جوپیٹر ’مشتری‘ کے عقب سے طلوع ہوا تھا۔ ایسے موقع پر چار چاند نظرآتے ہیں۔ یہ آپ نے اب تک محاوروں میں سنا ہوگا لیکن ہم حقیقت میں اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ اسے پلانیٹری آبزویشن کہتے ہیں۔ ہم چند مشہور فلکی اجسام اور کہکشاوں کا بھی مشاہدہ کرچکے ہیں۔انہیں کراچی سے دیکھنا ذرہ مشکل ہوتا ہے کیوں کہ یہ بہت ڈیپ اسکائی میں جاکر نظر آتے ہیں بہرحال ہم نے اس کی باقاعدہ فوٹوگرافی بھی کی ہے۔‘

عمر میں صرف ایک بار نظر آنے والا انوکھا مشاہدہ
وہ مزید بتاتے ہیں ’دو سال پہلے جب وینس سورج کے سامنے سے گزرا تھا تو اس کا بھی ہم نے مشاہدہ کیا تھا اس وقت ہمارے پاس یہ ٹیلی اسکوپ نہیں تھی ہم نے دوسری ٹیلی اسکوپ سے اس کا مشاہدہ کیا تھا لیکن ہیڈکوارٹر ہمارا یہی تھا۔ یہیں سے ہم نے اس کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس منظر کو ہمارے تمام ممبرز نے بھی دیکھا۔ سورج کے سامنے سے وینس کا گزرا ایک منفرد قدرتی عمل ہے جس کا مشاہدہ انسان اپنی لائف میں صرف ایک بار ہی کرسکتا ہے، کیوں کہ ایسا اوسطاً 150 سال میں صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ اب ہم ساری زندگی یہ مشاہدہ نہیں کرسکیں گے ہاں اگر قدرتی نے اتنی طویل عمر دی تو بات دیگر ہے۔‘

’کراچی امیچرایسٹرونومرز سوسائٹی‘
محمد مہدی حسین ’کراچی امیچر ایسٹرونومرز سوسائٹی‘کے سربراہ ہیں۔ یہ 2008ء میں قائم ہوئی تھی۔ان کے بقول، ’بہت سے لوگ اپنے طور پر فلکیات کا مشاہدہ کرتے تھے۔ ہمارے والد کو بھی فلکیات سے دلچسپی ہے۔ ہم چار بھائی ہیں اور چاروں اس طرف رجحان رکھتے ہیں۔ اکبر میرے چھوٹے بھائی ہیں جو چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں ۔میں آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھتا ہوں لیکن آبزرویٹری ہمارا خواب تھا، شوق اور جنون تھا اور ہے۔یہ سوسائٹی ہم نے اسی شوق کو پورا کرنے کے لئے تشکیل دی تھی ۔ہم چاہتے ہیں کہ جب روس، امریکہ، چین اور اب بھارت بھی فلکیات اور اسپیس میں آگے آرہا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ پیشہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس طرف آنے کا مقصد علم کو دور دور تک پھیلانا ہے۔ یہ پیور سائنس ہے ہم نے سوچا کہ نا تو حکومت اور نہ ہی تعلیمی ادارے اس طر ف توجہ دے رہے ہیں تو کیوں نہ ہم اس کام کی ابتدا کریں بس یہی سوسائٹی کے قیام کا مقصد تھا۔

’ہم سوسائٹی کی پروموشنز کے لئے تعلیمی اداروں سے رابطہ کرتے ہیں، ان کے ساتھ ملکر آبزویشن سیشنز بھی کرتے ہیں۔ ہم اس کا کوئی چارج بھی وصول نہیں کرتے۔ جو ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے سیشنز ان کے اسٹودنٹس کے لئے مفید ہیں وہ ہمیں انوائٹ کرتے ہیں۔ ہم رضاکارانہ طور پر یہ خدمت انجام دیتے ہیں، حالانکہ اس آبزویٹری پر 15لاکھ روپے خرچ ہوئے جو ہم نے ذاتی جیب سے اور شوق کی خاطر خرچ کئے، جبکہ باقی خرچہ اس کے علاوہ ہے۔ یہ صرف شوق کی بنیاد پر ہے۔‘

XS
SM
MD
LG