پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ سے لاپتا ہونے والے مزید دو اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق منگل کی شب بلوچستان کے ضلع مستونگ سے لاپتا ہونے والے نوجوان نور اللہ اپنے گھر پہنچ گئے۔ وہ آٹھ سال قبل لاپتا ہوئے تھے۔
ادھر مستونگ کے علاقے ہی سے پانچ سال قبل لاپتا ہونے والے دوسرے نوجوان اختر شاہ بھی بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گئے۔ دونوں نوجوانوں کی خیریت سے بازیابی پر والدین، عزیزو اقارب اور علاقے کے لوگ خوش اور مطمئن ہیں۔
اس سلسلے میں جب بازیاب ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات کی فراہمی سے انکار کیا۔
ادھر لاپتا افراد کی تنظیم 'وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز' کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی تنظیم لاپتا افراد کی بازیابی کے شروع ہونے والے اس سلسلے سے مطمئن ہے۔
نصر اللہ بلوچ کے بقول فروری 2019 میں لاپتا افراد کی تنظیم نے بلوچستان حکومت کو تصدیق شدہ 590 افراد کی فہرست فراہم کی تھی جن میں سے اب تک 315 سے زائد افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز مستونگ سے بازیاب ہونے والے افراد کا نام بھی حکومت کو فراہم کردہ جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد کی فہرست میں شامل تھا۔
یاد رہے کہ رواں سال 2021 میں اب تک بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتا ہونے والے 22 افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔
اس سے قبل فروری کے پہلے ہفتے میں بھی 20 افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو پہنچے تھے۔ ان افراد کا تعلق بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ، خاران، گوادر، قلات، ڈیرہ بگٹی اور مکران ڈویژن سے تھا۔
دوسری جانب بلوچستان سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ فضل الرحمٰن کی سربراہی میں قائم کمیشن نے کوئٹہ میں تیسرے روز سماعت کی۔
سماعت کے دوسرے روز 11 لاپتا افراد کے کیسز سنے گئے جن میں سے تین افراد کا تعلق ضلع کچھی، تین کا قلات، دو کا تعلق کوئٹہ، دو کا گوادر اور ایک کا تعلق ضلع مستونگ سے ہے۔
کمیشن ذرائع کے مطابق سماعت کے دوسرے روز کسی بھی لاپتا شخص کی بازیابی کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت 13 فروری تک جاری رہے گی کمیشن چھ روز کی سماعت کے دوران مجموعی طور پر 63 لاپتا کیسز کی سماعت کرے گا۔
ادھر بلوچستان کی صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ 'وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز' کی جانب سے انہیں 450 افراد کی فہرست فراہم کی گئی تھی جن میں سے 300 سے زائد افراد بازیاب ہوچکے ہیں۔
'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' نے حکومت سے اپیل کر رکھی ہے کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کے معاملے کے طور پر دیکھا جائے۔ کیوں کہ لاپتا ہونے والے افراد کے والدین زندگی بھر ایک اذیت اور کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔