بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ملک کے ایک جنوبی ضلع سے تعلق رکھنے والے دو ہندو اساتذہ کو اسلام کے بارے میں مبینہ طور پر توہین آمیز کلمات استعمال کرنے پر قید کی سزا سنائی ہے۔
مجسٹریٹ انور پرویز نے منگل کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ مقدمہ اتوار کو بگرہٹ ضلعے میں حجلہ ہائی سکول کے دو طالب علموں کی شکایت پر درج کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سائنس کے ایک اسسٹنٹ ٹیچر نے مبینہ طور پر کہا کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے اور جنت کا کوئی وجود نہیں۔
انور پرویز کے مطابق جب سکول کے ہیڈ ٹیچر نے اپنے ساتھی استاد کی حمایت کی تو 17 اور 18 سالہ طالب علم اور قریب ہی واقعہ ایک مدرسے کے دیگر طلبا مشتعل ہو گئے۔
بعد ازاں طلبا، والدین اور دیہاتیوں نے ان اساتذہ پر لاٹھیوں سے حملہ کر دیا جبکہ خود کو بچانے کے لیے وہ دونوں ایک کمرے میں بند ہو گئے جہاں سے پولیس نے ان کو نکالا۔
جلد فیصلہ سنانے والی عدالت کے مجسٹریٹ نے کہا کہ اسسٹنٹ ٹیچر نے کھل عام توہین مذہب کا اعتراف کیا ہے اور ان دونوں اساتذہ کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یہ سزا برطانوی دور سے رائج ایک قانون کے تحت سنائی گئی ہے جس کا مقصد مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان تشدد اور اشتعال انگیزی کو روکنا تھا۔ اس قانون کو ملک میں بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں اسلام پسند اور سیکولر حلقوں کے درمیان کشمکش جاری ہے جب کہ سیکولر مصنفوں، مذہبی اقلیتوں اور سرگرم کارکنوں کو گزشتہ دو سال کے دوران نشانہ بنایا گیا ہے۔
پیر کی رات ہی چند نوجوانوں نے ڈھاکہ میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حامی دو افراد کو چھرے گھونپ کر قتل کردیا تھا۔
اس سال قتل کا یہ ایسا پانچواں واقعہ ہے جبکہ گزشتہ سال نو افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ ان ہلاکتوں کے بعد عالمی برادری نے بنگلہ دیش پر زور دیا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے اور سرگرم کارکنوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرے۔