لندن —
برطانیہ میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی گزشتہ دس برسوں میں 60 فیصد اضافے کے ساتھ پانچ کروڑ 61لاکھ تک پہنچ گئی ہے جن میں دو فیصد پاکستانی، 2.5 فیصد بھارتی نژاد برطانوی شامل ہیں۔
مارچ 2011ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں سیاہ فام آبادی87 فیصد سے کم ہو کر 80 فیصد رہ گئی ہے جب کہ گزشتہ دس سالوں میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں میں 40لاکھ کمی واقع ہوئی ہے۔
2001ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں عیسائیوں کی تعداد 37 ملین تھی جب کہ 2011ء میں یہ کم ہو کر 33ملین رہ گئی ہے۔ لیکن برطانیہ کی 60 فیصد آبادی اب بھی عیسائیت کو اپنا مذہب مانتی ہے۔
2011ءکی مردم شماری کے اعدادو شمار کے مطابق اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور برطانیہ میں مسلمان کل آبادی کا پانچ فیصد ہیں جن کی تعداد 27 لاکھ ہے۔
برطانیہ کی 14ملین آبادی نے اپنا مذہب ظاہر نہیں کیا اور اعدادو شمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک برطانوی باشندہ کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا اور ایسے افراد کی تعداد میں گزشتہ دس سالوں کے دوران دس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
برطانیہ کی تازہ مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں بسنے والے برٹش پاکستانیوں کی تعداد 1.2 ملین جب کہ برٹش انڈینز کی تعداد 1.4 ملین ہے۔
ایشائی باشندوں کی تعداد میں تیز رفتار اضافے کی وجوہات گزشتہ دس برسوں میں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے لاکھوں تارکین وطن کی آمد بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں 75 لاکھ افراد ایسے ہیں جو دیگر ممالک میں پیدا ہوئے اور ایسے افراد کی اکثریت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے بتائی گئی ہے۔
برطانیہ کے قومی شماریات کے دفتر کے مطابق تازہ مردم شماری کے نتائج نے برطانوی آبادی کی ایک بدلتی ہوئی تصویر پیش کی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سفید فام مقامیوں کی تعداد میں کمی جب کہ ایشائی برطانوی شہریوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق لندن، یورپ کا ایک غیر سفید فام اکثریتی شہر بن گیا ہے۔ 2001ء میں لندن کی 58 فیصد آبادی سفید فام برطانوی باشندوں پر مشتمل تھی جو کہ 2011ء میں کم ہو کر 45 فیصد رہ گئی ہے۔
لندن میں مقامی سفید فام باشندوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کو گزشتہ دس سالوں میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن کی آمد سے جوڑا گیا ہے۔
لندن میں برٹش انڈین کی تعداد پانچ لاکھ دوہزار برٹش پاکستانیوں کی تعداد دو لاکھ 24ہزار جب کہ برٹش بنگلہ دیشیوں کی تعداد دو لاکھ 22ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
مارچ 2011ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں سیاہ فام آبادی87 فیصد سے کم ہو کر 80 فیصد رہ گئی ہے جب کہ گزشتہ دس سالوں میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں میں 40لاکھ کمی واقع ہوئی ہے۔
2001ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں عیسائیوں کی تعداد 37 ملین تھی جب کہ 2011ء میں یہ کم ہو کر 33ملین رہ گئی ہے۔ لیکن برطانیہ کی 60 فیصد آبادی اب بھی عیسائیت کو اپنا مذہب مانتی ہے۔
2011ءکی مردم شماری کے اعدادو شمار کے مطابق اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور برطانیہ میں مسلمان کل آبادی کا پانچ فیصد ہیں جن کی تعداد 27 لاکھ ہے۔
برطانیہ کی 14ملین آبادی نے اپنا مذہب ظاہر نہیں کیا اور اعدادو شمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک برطانوی باشندہ کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا اور ایسے افراد کی تعداد میں گزشتہ دس سالوں کے دوران دس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
برطانیہ کی تازہ مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں بسنے والے برٹش پاکستانیوں کی تعداد 1.2 ملین جب کہ برٹش انڈینز کی تعداد 1.4 ملین ہے۔
ایشائی باشندوں کی تعداد میں تیز رفتار اضافے کی وجوہات گزشتہ دس برسوں میں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے لاکھوں تارکین وطن کی آمد بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں 75 لاکھ افراد ایسے ہیں جو دیگر ممالک میں پیدا ہوئے اور ایسے افراد کی اکثریت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے بتائی گئی ہے۔
برطانیہ کے قومی شماریات کے دفتر کے مطابق تازہ مردم شماری کے نتائج نے برطانوی آبادی کی ایک بدلتی ہوئی تصویر پیش کی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سفید فام مقامیوں کی تعداد میں کمی جب کہ ایشائی برطانوی شہریوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق لندن، یورپ کا ایک غیر سفید فام اکثریتی شہر بن گیا ہے۔ 2001ء میں لندن کی 58 فیصد آبادی سفید فام برطانوی باشندوں پر مشتمل تھی جو کہ 2011ء میں کم ہو کر 45 فیصد رہ گئی ہے۔
لندن میں مقامی سفید فام باشندوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کو گزشتہ دس سالوں میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن کی آمد سے جوڑا گیا ہے۔
لندن میں برٹش انڈین کی تعداد پانچ لاکھ دوہزار برٹش پاکستانیوں کی تعداد دو لاکھ 24ہزار جب کہ برٹش بنگلہ دیشیوں کی تعداد دو لاکھ 22ہزار تک پہنچ گئی ہے۔