رسائی کے لنکس

کنزرویٹو پارٹی کا 14 سالہ دورِ اقتدار ختم، لیبر پارٹی کے اسٹارمر برطانیہ کے وزیرِ اعظم بن گئے


  • ہم دنیا میں برطانیہ کا قائدانہ کردار بحال کرائیں گے۔ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے: نو منتخب برطانوی وزیرِ اعظم اسٹارمر
  • رشی سونک نے انتخابات میں شکست کا اعتراف کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر کو مبارک باد دی۔
  • لیبر پارٹی ملک کی خدمت کے لیے تیار ہے، کیئر اسٹارمر کا وکٹری اسپیچ میں اظہارِ خیال
  • آخر کار اس عظیم قوم کے کاندھوں پر موجود بوجھ ہٹ چکا ہے اور اب ہم اسے آگے لے جائیں گے، اسٹارمر

ویب ڈیسک انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی لیبر پارٹی کے سربراہ سر کیئر اسٹارمر نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا ہے اس کے ساتھ ہی برطانیہ میں قدامت پسند پارٹی کنزرویٹو کا 14 سالہ طویل اقتدار ختم ہوگیا ہے۔

جمعے کو برطانوی فرماں روا چارلس سوم سے بکنگھم پیلس میں ملاقات کے بعد کیئر اسٹارمر نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ اس موقعے پر سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ہم دنیا میں برطانیہ کا قائدانہ کردار بحال کرائیں گے۔ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی اعتماد میں کمی کا ازالہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا پڑیں گے۔ عوام نے تبدیلی کے لیے واضح فیصلہ سنایا ہے۔

اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم رشی سونک نے انتخابات میں شکست کا اعتراف کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر کو مبارک باد دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ انتخابات میں شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ آج پُرامن اور منظم انداز میں انتقالِ اقتدار ہو گا۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمیں اپنے ملک کے استحکام اور مستقبل میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے کرنا چاہیے۔

رشی سونک نے کہا تھا کہ انتخابی نتائج میں ہمارے لیے سیکھنے اور غور کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور وہ اس شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔

برطانیہ میں بڑھتی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کے دوران پانچ وزرائے اعظم کی تبدیلی کو کنزرویٹو پارٹی کی شکست کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر نے بھی وکٹری اسپیچ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب تبدیلی کا آغاز ہو گیا ہے۔ ساڑھے چار سال کی کوششوں کے بعد پارٹی میں تبدیلی آئی اور اب ایک تبدیل ہوتی ہوئی لیبر پارٹی موجود ہے جو ملک کی خدمت کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آخر کار اس عظیم قوم کے کاندھوں پر موجود بوجھ ہٹ چکا ہے اور اب ہم اسے آگے لے جائیں گے۔ گزشتہ 14 برس کی ناکامیوں کے بعد ملک میں ایک مرتبہ پھر روشن مستقبل کے دروازے کھلیں گے۔

اسٹارمر نے مزید کہا تھا کہ ہمیں سیاست کو عوام کی خدمت کے لیے واپس لانا ہے اور یہ دکھانا ہے کہ سیاست ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعے بہتر کام کیے جا سکتے ہیں۔

لیبر پارٹی کے رہنما نے اپنے حامیوں سے خطاب میں مزید کہا تھا کہ آپ لوگوں نے انتخابی مہم چلائی، جدوجہد کی اور ووٹ دیا اور اب ہم جیت چکے ہیں۔

برطانوی پارلیمنٹ کی 650 نشستوں میں سے لیبر پارٹی کو 412 اور کنزرویٹو پارٹی کو 120 نشستیں ملی ہیں۔

سینٹرل لبرل ڈیموکریٹس کو 71 نشستیں، اسکاٹش نیشنل پارٹی کو نو جب کہ دائیں بازو کی اصلاح پسند جماعت یو کے پارٹی کو 04 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ باقی نشستیں دیگر جماعتوں نے حاصل کی ہیں۔

سر کیئر اسٹارمر کون ہیں؟

سن 1935 کے بعد سے 2019 میں لیبر پارٹی کی کارکردگی بد ترین رہی تھی۔ بائیں بازو کے کہنہ مشق سیاست داں جیرمی کوربن کے پانچ سال بعد لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے کیئر اسٹارمر نے لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی اور وہ برطانوی سیاست میں اپنی پارٹی کی مرکزی حیثیت بحال کرانے میں کامیاب رہے۔

اکسٹھ سالہ اسٹارمر انسانی حقوق کے وکیل ہیں وہ 2008 سے 2013 تک انگلینڈ اینڈ ویلز کے چیف پراسیکیوٹر رہے ہیں۔

پراسیکیوشن سروس میں ان کی طویل خدمات کے اعتراف میں اسٹارمر کو 2013 میں سر کا خطاب دیا گیا تھا۔

(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' اور 'اے پی' سے لی گئی ہیں۔)

فورم

XS
SM
MD
LG