یوکرین کے مشرقی علاقے پر قابض علیحدگی پسندوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرینی حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت بھاری ہتھیار فرنٹ لائن سے ہٹا رہے ہیں۔
علیحدگی پسند باغیوں کے کمانڈر ایڈورڈ باسورین نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ان کے جنگجووں نے منگل کی صبح نو بجے سے ہتھیاروں کی محاذ سے منتقلی شروع کردی ہے۔
تاہم ان کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے جب کہ یوکرین کی افواج نے بھی باغیوں کے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
گزشتہ روز یوکرینی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ مشرقی یوکرین کے محاذ سے بھاری اسلحہ پیچھے نہیں ہٹائے گی کیوں کہ جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود باغیوں کے حملے مسلسل جاری ہیں۔
فوجی حکام نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ منگل کو بھی ساحلی شہر میری پول اور دیبتالسیو کے نزدیک روس نواز علیحدگی پسندوں کے حملے جاری رہے۔
علیحدگی پسندوں کے ساتھ کئی روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد گزشتہ ہفتے یوکرینی فوج پر دیبالتسیو سے پسپا ہوگئی تھی اور قصبے پر باغیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔
علاقے میں جاری مسلسل لڑائی کےباعث 15 فروری کو یورپی طاقتوں کی کوششوں سے یوکرین اور علیحدگی پسندوں کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد مسلسل تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔
گزشتہ 10 ماہ سے یوکرینی فوج اور روس نواز باغیوں کے درمیان جاری لڑائی اور جھڑپوں میں اب تک ساڑھے پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
یوکرین کی صورتِ حال پر غور کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس منگل کو ہورہا ہے جس میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی 'یورپی تنظیم برائے سلامتی و تعاون (او ایس سی ای)' کے نمائندے ارکان کو علاقے کی صورتِ حال پر بریفنگ دیں گے۔
اس سے قبل منگل کو یوکرین، روس، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے 'او ایس سی ای' کے نگران مشن کو مزید موثر بنانے پر اتفاق کیا تھا۔
پیرس میں تین گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اجلاس کے میزبان اور فرانس کے وزیرِ خارجہ لوغاں فیبیوس نے صحافیوں کو بتایا کہ چاروں ملکوں نے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
یوکرینی حکومت کا الزام ہے کہ روس اور اس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند جنگجو جنگ بندی کے معاہدے کا احترام نہیں کر رہے ہیں جو جرمنی اور فرانس کی کوششوں سے طے پایا تھا۔
لیکن روس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔