اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یوکرین پر ماسکو کے حملے کے ابتدائی دنوں میں روسی افواج نے کم از کم 441 شہریوں کو ہلاک کیا۔رپورٹ میں درجنوں قصبوں میں ہونے والے حملوں اور فوری فیصلوں میں سزائے موت دیے جانے کو دستاویزی شکل دینے کے ساتھ کہا ہے کہ یہ جنگی جرائم ہو سکتے ہیں۔
ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے دفتر نے ایک رپورٹ میں کہا کہ کیف، چرنیہیو اور سومی کے علاقوں میں یہ حملے 24 فروری کو شروع ہوئے اور اپریل کے اوائل تک روسی افواج کے تینوں علاقوں سے پیچھے ہٹنے تک جاری رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرین کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جن جرائم پر بات کی جا رہی ہے وہ روسی مسلح افواج نے ان علاقوں پر قبضے کے دوران کیے اور ان میں 441 عام شہری (341 مرد، 72 خواتین، 20 لڑکے اور 8 لڑکیاں)ہلاک ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر تُرک نے ایک بیان میں کہا کہ اس بات کے قوی اشارے ہیں کہ رپورٹ میں فوری عدالتی کارروائی میں دی جانے والی موت کی جن سزاؤں کا ذکر ہے وہ جان بوجھ کر قتل کیے جانے کےجنگی جرم کے زمرےمیں آتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے یوکرین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی نگرانی کے مشن (HRMMU) کے ذریعے، 102 قصبوں اور دیہاتوں سے یہ شواہد اکٹھے کیے ہیں۔
روسی وزارت خارجہ اور دفاع سے جب اس خبر پر تبصرہ کی درخواست کی گئی تو انہوں نے فوری جواب نہیں دیا۔
ماسکو شہریوں کو نشانہ بنانے کی بارہا تردید کرتا ہے اور کہتا ہے اس نےیہ خصوصی فوجی آپریشن اپنے پڑوسی یوکرین کو غیر مسلح کرنے اور وہاں خطرناک قوم پرستوں کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کیا ہے۔جب کہ یوکرین اور اس کے مغربی اتحادی اسے زمین پر قبضے کے لیے بلا اشتعال حملہ قرار دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق اس نے ، چاردسمبر تک ہونے والی جنگ میں مجموعی طور پر، 6,702 سویلین اموات کی گنتی کی ہے، اور اس نے تمام فریقین کی طرف سے خلاف ورزیوں کو نوٹ کیا ہے۔
نئی رپورٹ کا دائرہ کار روس کے زیر کنٹرول ان تین علاقوں تک محدود تھا جہاں لڑائی کے ابتدائی دنوں میں شہریوں کی ہلاکت کے الزامات زیادہ تھے اور جہاں روسی افواج کے پیچھے ہٹنے کے بعد،انسانی حقوق کا دفتر اس قابل ہوا کہ وہاں ہونے والی اموات کی تصدیق کر سکے اور انہیں دستاویزی شکل دےسکے۔
اقوام متحدہ کے ایک کمیشن نے اکتوبر میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ روسی افواج نے انسانی حقوق کی زیادہ تر خلاف ورزیاں جنگ کے ابتدائی دنوں میں کی تھیں۔
نئی رپورٹ کے مطابق بازیاب ہونے والی بہت سی لاشوں پر ایسے نشان ملے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں جان بوجھ کر تشدد سے قتل کیا گیا تھا۔ادارہ ، اکتوبر کے آخر تک،ان198 مبینہ ہلاکتوں کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا تھا،جو ان تینوں خطوں میں ہوئیں۔
دارالحکومت کیف کے قریب بوچا کے قصبے میں جو 5 مارچ سے 30 مارچ تک روسی فوجیوں کے کنٹرول میں تھابہت زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔اس علاقے میں 73 شہریوں کی اموات کی تصدیق ہوئی جبکہ 105 کی تحقیق جاری ہے۔
رپورٹ کا مقصدیہ بیان کیا گیا ہے کہ ہلاکتوں کو دستاویزی شکل دے کر متاثرین کی مدد کی جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا۔