پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ پاکستان تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کیس سے متعلق ٹوئٹ کرنے پر ٹوئٹر انتظامیہ نے بلاک کردیا تھا۔ تاہم صحافیوں کے حقوق کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) اور نامور صحافیوں کی نشاندہی پر ٹوئٹر نے کئی گھنٹے بعد ان کا اکاؤنٹ بحال کیا۔
صحافی عمر چیمہ کا یہ اکاؤنٹ جمعرات کی رات اس وقت بلاک کیا گیا تھا جب انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی فارن فنڈنگ سے متعلق کیس کے حوالے سے درخواست گزار اکبر ایس بابر کے بارے میں لکھا کہ ‘جب سال 2014 میں انہوں نے یہ کیس فائل کیا تو اس وقت اکبر ایس بابر کو دھمکیاں دی گئیں کہ پی ٹی آئی کے جرائم پیشہ عناصر انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں’۔
اکبر ایس بابر نے اس وقت اس معاملے پر سیکریٹری داخلہ کو تحریری درخواست بھی دی تھی۔
عمر چیمہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ہمیشہ الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ کبھی ایسے الفاظ اپنی خبر یا ٹوئٹ میں استعمال نہ کروں، جو قابل اعتراض ہوں۔
عمر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ٹوئٹ میں بھی میں نے کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی تھی اور وہی لکھا تھا جو پہلے سے ہی پبلک ہے۔
عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ مجھے کبھی بھی ٹوئٹر کی طرف سے کوئی ایسی تنبیہ موصول نہیں ہوئی کہ میرے خلاف کسی نے شکایت کی ہو۔
ان کے بقول پہلی بار ایسا ہوا کہ میرا ٹوئٹر اکاؤنٹ بلاک کر دیا گیا ہو۔ اس پر سی پی جے نے بھی ٹوئٹر پر تنقید کی جبکہ اکاؤنٹ کھولنے کا مطالبہ کیا۔
عمر چیمہ نے کہا کہ رات گئے انہیں ٹوئٹر کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی کہ ان کا اکاؤنٹ بحال کیا جا رہا ہے۔
اپنی ٹوئٹ سے متعلق عمر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ میری جس ٹوئٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وہ پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ سے متعلق تھا۔
ان کے بقول دراصل یہ معاملہ اکبر ایس بابر کے حوالے سے تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کسی شخص کے مسئلے کو اجاگر کرنے پر اسے رپورٹ کر دیا جائے گا۔
عمرچیمہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ حکومتی سطح پر یا پی ٹی آئی کے حامی صارفین کی شکایت پر ٹوئٹر حرکت میں آیا ہے۔ میرا ماضی میں ایسا کبھی تجربہ نہیں تھا کہ اکاؤنٹ کے بارے میں شکایت ہو۔ میں اپنے ٹوئٹس کا خیال کرتا ہوں، لیکن اس بار ایسا ہوا آئندہ پتہ نہیں کیا کیا ہوگا۔
سوشل میڈیا پر کنٹرول کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت اور پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنے کہے ہوئے کے برخلاف عمل کرتے ہیں۔ جب اپوزیشن میں تھے تو اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ سوشل میڈیا آزاد ہو۔ لیکن اب یہ صرف تعریف کرنے والے ہی ڈھونڈتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے خلاف بولنے والے نہ اخبار میں نظر آئیں، نہ ٹی وی پر اور نہ ہی سوشل میڈیا پر نظر آئیں۔
اس معاملے پر ‘میڈیا میٹرز فار ڈیمو کریسی’ کے اسد بیگ کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں ٹوئٹر انتظامیہ کی جانب سے با رہا ایسا دیکھنے میں آیا کہ اگر ایک معاملے پر کئی ٹوئٹر اکاؤنٹس سے اسے رپورٹ کیا جائے تو اس ٹوئٹ کی حقیقت جانے بغیر اس اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔
اسد بیگ کا مزید کہنا تھا کہ ایسا پچھلے کچھ عرصہ میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی صورت حال پر بھی ہوا۔ جب بھارت سے بڑی تعداد میں ٹوئٹر حکام کو شکایت کی گئی تو کئی پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ عمر چیمہ کے اکاؤنٹ میں بھی لگ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماس رپورٹنگ کی وجہ سے پاکستان میں کئی صحافیوں کے اکاؤنٹس بند ہو چکے ہیں۔ ٹوئٹر کو اپنے طریقے سے چلانا انتہائی آسان ہے۔ صرف چند سو اکاؤنٹس کی طرف سے شکایات پر کسی کا اکاؤنٹ بند ہو سکتا ہے اور ٹرینڈ بن سکتا ہے۔ اس معاملے پر ٹوئٹر کو دیکھنا ہوگا کہ ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔
اسد بیگ کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ وقت ختم ہوتا جا رہا ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر اپنی مرضی کرسکیں۔ اب ٹوئٹر انتظامیہ پر وقت کے ساتھ ساتھ ان تمام چیزوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ان پلیٹ فارمز کو دیکھنا ہوگا کہ کوئی بھی ٹوئٹ کس سیاق و سباق کے ساتھ کی گئی ہے۔