اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے جمعہ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کہا گیا ہے کہ جنوبی سوڈان کی حکومت 2015 کی خانہ جنگی کے دوران شہریوں کے دانستہ ریپ اور قتل و غارت گری میں ملوث رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ ’’اس رپورٹ میں حزب اختلاف کی حمایت کرنے کے شبہے میں بچوں اور معذوروں سمیت شہریوں کے ساتھ کیے گئے بیہمانہ سلوک کی دردناک کہانیاں موجود ہیں جنہیں زندہ جلایا گیا، کنٹینروں میں دم گھونٹ کر مارا گیا، گولی ماری گئی، درختوں سے لٹکایا گیا یا ان کے ٹکڑے کر دیے گئے۔‘‘
بیان میں کہا گیا کہ حکومت کے حامی گروہوں کو اجازت تھی کہ وہ اجرت کے عوض عورتوں کو ریپ کریں۔
اپریل اور ستمبر 2015 کے درمیان اقوام متحدہ نے جنوبی سوڈان کی یونیٹی ریاست میں ریپ کے 1,300 واقعات ریکارڈ کیے۔ ایک واقعے میں فوجیوں نے اس بات پر بحث کی کہ ایک چھ سالہ بچی کو ریپ کیا جائے یا نہیں اور پھر اسے گولی مار دی۔
اقوام متحدہ کے کیمپوں میں موجود عورتیں جب خوراک اور آگ جلانے کے لیے لکڑی لینے باہر جاتیں تو انہیں بھی خطرے کا سامنا تھا۔
جنوبی سوڈان میں دسمبر 2013 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی جس کے بعد اس نئے ملک میں انتشار پھیل گیا، ہزاروں افراد قتل ہوئے اور 20 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوئے جبکہ کم از کم 40 ہزار افراد قحط کا شکار ہوئے۔
اس وقت سے نومبر 2015 تک یونیٹی ریاست میں لگ بھگ 10,553 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 7,165 افراد تشدد سے جبکہ 829 ڈوبنے سے ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قتل کے یہ واقعات دانستہ، منظم اور نسل کی بنیاد پر ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام فریقین انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں مگر سرکاری فورسز پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔