رسائی کے لنکس

اقوام متحدہ نے اردن میں شامی پناہ  گزینوں کی مالی امداد میں کمی کر دی


اردن میں شامی پناہ گزینوں کے لیے قائم ارزاق کیمپ میں پناہ گزین اپنے نام کا اندارج کرانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔
اردن میں شامی پناہ گزینوں کے لیے قائم ارزاق کیمپ میں پناہ گزین اپنے نام کا اندارج کرانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔

خوراک کی امداد فراہم کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ فنڈز کی شدید قلت کے باعث وہ اردن کے دو کیمپوں میں مقیم ایک لاکھ 20 ہزار شامی پناہ گزینوں کی ماہانہ مالی امداد میں کٹوتی کر رہا ہے۔

اردن کی آبادی ایک کروڑ 10 لاکھ ہے جب کہ اس پر شام سے آئے ہوئے 13 لاکھ پناہ گزینوں کا بھی بوجھ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر پناہ گزین اردن کے شہروں اور قصبوں میں رہ رہے ہیں جب کہ ہزاروں کو دو بڑے پناہ گزین کیمپوں زاتاری اور ازراق میں بسایا گیا ہے۔جنہیں ماہانہ نقد امداد بھی دی جاتی ہے۔

امدادی ادارے نے کہا ہے کہ یکم اگست سے وہ ان کیمپوں میں رہنے والے ہر فرد کے لئے ماہانہ امداد 32 ڈالر سے گھٹا کر 21 ڈالر کر رہا ہے۔

دوسری جانب اردنی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ان کی حکومت کے پاس بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی جانب سے پیدا کیے جانے والے امدادی خلا کو بھرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

اردن میں قائم شامی پناہ گزینوں کے زاتاری کیمپ کا ایک منظر۔ فائل فوٹو
اردن میں قائم شامی پناہ گزینوں کے زاتاری کیمپ کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

نقد امداد میں کٹوتی کے اعلان سے پہلے ورلڈ فوڈ پروگرام نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ وہ اردن میں مقیم پناہ گزینوں میں سے 50 ہزار افراد کی امداد بتدریج مکمل طور پر ختم کر دے گا۔

شروع میں عالمی ادارہ چار لاکھ 65 ہزار مہاجرین کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔

اقوام متحدہ کے ادارے اور بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی تنظیمیں کئی برسوں سے شام اور اس کے پڑوسی ملکوں میں شامی پناہ گزینوں کے لیے امداد کی مالی ضروریات پوری کرنے کو کوشش کرتی رہی ہیں جنہیں کرونا وبا اور یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اردن کے ایک پناہ گزین کیمپ میں ایک خاتون اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی ہے۔ فائل فوٹو
اردن کے ایک پناہ گزین کیمپ میں ایک خاتون اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی ہے۔ فائل فوٹو

اگرچہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت نے اپنے اتحادیوں روس اور ایران کی مدد سے اپنے بڑے علاقوں کا قبضہ واپس لینے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس جنگ زدہ ملک کو بدستور بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

شام کی بغاوت کے بعد خانہ جنگی کو اب 13 برس ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں ملک کی دو کروڑ 30 لاکھ آبادی کا نصف حصہ بے گھر ہو چکا ہے۔

اردن کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کے نمائندے البرٹو کورنیا مینڈیز کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے فنڈز کی فراہمی ختم ہوتی جائے گی، ہمارا ہاتھ بھی تنگ ہوتا جائے گا۔

عالمی امدادی ادارے نے کہا ہے کہ حالیہ کٹوتیوں کے باوجود انہیں اب بھی تقریباً چار کروڑ دس لاکھ ڈالر کی کمی کا سامنا ہے جس کے لیے انہیں اضافی اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں۔

اردن کے زاتاری کیمپ میں مقیم شامی پناہ گزین پانی لینے کے لیے جمع ہیں۔ فائل فوٹو
اردن کے زاتاری کیمپ میں مقیم شامی پناہ گزین پانی لینے کے لیے جمع ہیں۔ فائل فوٹو

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے جون میں برسلز میں شام کے پناہ گزینوں کے لیے اس سال کی سالانہ ڈونر کانفرنس میں مطلوبہ فنڈنگ کی کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک یہ خلا بھرنے کے وسائل نہیں رکھتا اور اس کا نقصان بالآخر پناہ گزینوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

اردن میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے نمائندے ڈومینک بارٹش نے امداد کی صورت حال پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کی کٹوتی سے ان کا ادارہ صرف انتہائی کمزور خاندانوں کی ہی مدد کر سکے گا جب کہ دیگر بہت سے لوگوں کو امداد نہیں مل سکے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ خطرہ موجود ہے کہ صورت حال ایک انسانی بحران کی طرف چلی جائے گی جس کے نتائج مہاجرین اور ان کی میزبان کمیونیٹرز کے لیے سنگین ہوں گے۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈپریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG