اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے کہا ہے کہ اگرچہ ان کے ملک میں وزیرِ اعظم نیتن یا ہو کی سخت مؤقف کی حامل حکومت کے اقدامات پر " تند اور تکلیف دہ مباحثہ" جاری ہے تاہم اسرائیل میں جمہوریت برقرار ہےاور امریکہ ۔اسرائیل تعلقات مضبوط تر ہیں۔
انہوں نے یہ یقین دہانی بدھ کے روز امریکی کانگریس سے خطاب میں کروائی۔
اسرائیل میں ہرزوگ کا منصب زیادہ ترعلامتی ہے اور وہ اپنے والد ہائم ہرزوگ کے بعد دوسرے اسرائیلی صدر ہیں جنہوں نے کانگریس سے خطاب کیا ہے۔
ان کی یہ تقریر اسرائیل کے قیام کے 75 سال پورے ہونے کے موقعے پر ہوئی ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے دوران اگرچہ براہ راست تو نہیں مگر نیتن یاہو حکومت کے اسرائیلی نظامِ انصاف میں متنازعہ تبدیلیوں اور مغربی کنارے میں یہودی بستیوں میں توسیع کے اقدامات اور دیگر معاملات پر بائیڈن انتظامیہ اور ڈیمو کریٹک قانون سازوں میں پائی جانے والی بے چینی کا جواب دینے کی بھی کوشش کی۔
ان کی تقریر میں اسرائیل کے قیام کی تاریخ کے بیان کے دوران اگرچہ قانون سازوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں مگر بعض نوجوان ترقی پسند ڈیموکریٹک قانون سازوں نے ان کی تقریر کا بائیکاٹ بھی کیا۔
ہرزوگ کے کانگریس سے اس خطاب سے ایک روز پہلے، ریپبلکن قیادت والے ایوانِ نمائندگان نے اسرائیل کی حمایت کے اعادے کے لیے ایک قرارداد منظور کی جو ریاست واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی ڈیمو کریٹک رکنِ کانگریس پامیلا جے پال کی بات کی بظاہر سرزنش تھی جنہوں نے اختتامِ ہفتہ اسرائیل کو " نسل پرست ملک" کہا تھا اور پھر بعد میں معذرت کر لی تھی۔
آئزک ہرزوگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ دوستوں کی تنقید کو نظر اندازنہیں کرتے جن میں اس ایوان کے بعض ارکان بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا،" میں تنقید کا احترام کرتا ہوں خصوصاً دوستوں کی تنقید کا، گو کہ کسی کے لیے بھی ہمیشہ اس کا خیر مقدم ضروری نہیں۔"
لیکن انہوں نے کہا،"اسرائیل پر تنقید کو حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ اس کے ریاست کے طور پر برقرار رہنے کے حق کی نفی کرے، یہودیوں کی بقا کے حقِ خود ارادیت پر سوال اٹھائے کیونکہ یہ جائز سفارتکاری نہیں، یہ صیہونیت کی مخالفت ہے۔"
رشیدہ طلیب مشی گن سے واحد فلسطینی نژاد ڈیمو کریٹک رکنِ کانگریس ہیں۔ انہوں نے ہرزوگ کی تقریر کا بائیکاٹ کیا اور ریپبلکنز کی پیش کردہ قرار داد پر بھی یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ یہ مغربی کنارے میں رہنے والوں کے خلاف تشدد کو معمول کے مطابق قرار دینے کے برابر ہے جبکہ نیتن یاہو کی حکومت وہاں یہودی بستیوں کی تعمیر میں توسیع کی منظوری دے چکی ہے۔
کانگریس سے اپنے خطاب کے بعد ہرزوگ نائب صدر کاملا ہیرس سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس واپس آئے۔ نائب صدر ہیرس کے دفتر کا کہنا ہے کہ دونوں لیڈر اعلان کریں گے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں ماحول دوست زرعی پروگراموں کے لیے پانچ سال میں 70 ملین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
منگل کے روز اوول آفس میں صدر بائیڈن سے ملاقات کے دوران اسرائیلی صدر ہرزوگ نے صدر کو یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کی کہ اسرائیل نے جمہوریت کا عزم برقرار رکھا ہے۔ جبکہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے نظامِ انصاف میں تبدیلیوں کے منصوبوں پر واشنگٹن کی تشویش گہری ہوتی جا رہی ہے۔
نیتن یاہو کہتے ہیں کہ یہ اصلاحات غیر منتخب ججوں کے اختیارات پر روک کے لیے ضروری ہیں جبکہ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں سے اسرائیل میں احتساب کا نازک نظام تباہ ہوجائے گا اور ملک میں آمریت آجائے گی۔
ہر زوگ کا دورہ ایسے میں ہو رہا ہے جب ہفتوں پہلے اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں جنین کے پناہ گزین کیمپ میں اپنا ایک انتہائی سخت آپریشن کیا جو دو روز تک فضا میں اور زمین پر ایک ساتھ جاری رہا۔ دو عشروں میں اسرائیل کا یہ سخت ترین حملہ تھا۔
امریکی عہدیداروں نے وسیع تناظر میں اسرائیل کے اپنی حفاظت کے حق کی حمایت کی ہے تاہم زور دیا ہے کہ ضبط سے کام لیا جائے تاکہ عام شہریوں کا نقصان کم سے کم ہو۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر میں اضافے کی یہ کہتے ہوئےمخالفت کی ہے کہ اس سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعے کے دو ریاستی حل کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے۔
( اس خبر میں مواد اے پی سے لیا گیا ہے)