واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نائجیریا میں سرگرم دہشت گرد تنظیم 'بوکو حرام' پر پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دیدی ہے جس کے نتیجے میں تنظیم کو مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی کا راستہ روکا جاسکے گا۔
حالیہ مہینوں کے دوران 'بوکو حرام' کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد نائجیریا کی حکومت نے پیر کو سلامتی کونسل سے 'بوکو حرام' کے خلاف اقدامات کرنے کی درخواست کی تھی۔
درخواست پر فوری عمل کرتے ہوئے سلامتی کونسل نے جمعرات کو متفقہ طور پر 'بوکو حرام' کو ان گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دی جن پر عالمی ادارے نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
سلامتی کونسل سے منظوری کے بعد 'بوکو حرام' کے تمام اثاثے منجمد ہوگئے ہیں جب کہ اس کو اسلحے کی فراہمی بھی غیر قانونی قرار دیدی گئی ہے۔
سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی کے سربراہ اور عالمی ادارے میں آسٹریلیا کے سفیر گیری کوئنلن نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پابندیوں کا نفاذ 'بوکو حرام' کو ملنے والی غیر ملکی امداد روکنے کی جانب پہلا قدم ہے۔
آسٹریلوی سفیر کا کہنا تھا کہ پابندیوں کا مقصد ان افراد کی ہمت توڑنا ہے جو 'بوکو حرام' کے شدت پسندوں کو کسی طرح کی مالی امداد دینے یا ہتھیار فروخت کرنے کے بارے سوچ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل 'بوکو حرام' کو ملنے والی ہر قسم کی مدد کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔
شمال مشرقی نائجیریا کے مسلمان اکثریتی علاقے میں لگ بھگ پانچ سال قبل جنم لینے والی 'بوکو حرام' کی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ نائجیریا کی حکومت کو ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران تنظیم کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور جنگجووں نے دیہات پر حملے کرکے وہاں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
'بوکو حرام' نے حالیہ دنوں میں نائجیریا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ہونے والے ہلاکت خیز بم حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
تنظیم کے جنگجووں نے رواں سال اپریل کے وسط میں ایک قصبے کے اسکول پر حملہ کرکے 250 سے زائد طالبات کو یرغمال بھی بنالیا تھا۔
ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرجانے اور امریکہ، فرانس اور اسرائیل سمیت کئی ملکوں کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس مدد کے باوجود نائجیریا کی حکومت تاحال ان طالبات کو بازیاب نہیں کراسکی ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران 'بوکو حرام' کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد نائجیریا کی حکومت نے پیر کو سلامتی کونسل سے 'بوکو حرام' کے خلاف اقدامات کرنے کی درخواست کی تھی۔
درخواست پر فوری عمل کرتے ہوئے سلامتی کونسل نے جمعرات کو متفقہ طور پر 'بوکو حرام' کو ان گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دی جن پر عالمی ادارے نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
سلامتی کونسل سے منظوری کے بعد 'بوکو حرام' کے تمام اثاثے منجمد ہوگئے ہیں جب کہ اس کو اسلحے کی فراہمی بھی غیر قانونی قرار دیدی گئی ہے۔
سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی کے سربراہ اور عالمی ادارے میں آسٹریلیا کے سفیر گیری کوئنلن نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پابندیوں کا نفاذ 'بوکو حرام' کو ملنے والی غیر ملکی امداد روکنے کی جانب پہلا قدم ہے۔
آسٹریلوی سفیر کا کہنا تھا کہ پابندیوں کا مقصد ان افراد کی ہمت توڑنا ہے جو 'بوکو حرام' کے شدت پسندوں کو کسی طرح کی مالی امداد دینے یا ہتھیار فروخت کرنے کے بارے سوچ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل 'بوکو حرام' کو ملنے والی ہر قسم کی مدد کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔
شمال مشرقی نائجیریا کے مسلمان اکثریتی علاقے میں لگ بھگ پانچ سال قبل جنم لینے والی 'بوکو حرام' کی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ نائجیریا کی حکومت کو ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران تنظیم کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور جنگجووں نے دیہات پر حملے کرکے وہاں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
'بوکو حرام' نے حالیہ دنوں میں نائجیریا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ہونے والے ہلاکت خیز بم حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
تنظیم کے جنگجووں نے رواں سال اپریل کے وسط میں ایک قصبے کے اسکول پر حملہ کرکے 250 سے زائد طالبات کو یرغمال بھی بنالیا تھا۔
ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرجانے اور امریکہ، فرانس اور اسرائیل سمیت کئی ملکوں کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس مدد کے باوجود نائجیریا کی حکومت تاحال ان طالبات کو بازیاب نہیں کراسکی ہے۔