اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، انتونیو گوئیترس نے منگل کے روز جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں متنبہ کیا کہ شمالی کوریا کے جوہری عزائم کے نتیجے میں دنیا کو شدید ترین چیلنج لاحق ہے۔
نیویارک میں گوئیترس نے کہا کہ ’’آج ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے باعث ناقابل فہم خطرہ ہے، جب کہ اسلحے سے پاک کرنے کی کوششیں بیکار ہو کر رہ گئی ہیں‘‘۔
شمالی کوریا کا نام لے کر سکریٹری جنرل نے کہا کہ ’’عوامی جمہوریہ کوریا میں لاکھوں افراد جوہری ہتھیاروں اور میزائل تجربات کے خطرناک سائے تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میں اِن جوہری تجربوں کی واضح الفاظ میں مذمت کرتا ہوں‘‘۔
شمالی کوریا کے خلاف معاشی تعزیرات ٹھوس بنانے کے حالیہ اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے، گوئیترس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اتحاد کو سراہا۔ اور کہا کہ اس سے وہاں کی قیادت کو یہ ’’ایک واضح پیغام‘‘ ملتا ہے۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ ’’آتش مزاجی کی نوعیت کی باتوں سے شدید غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کا حل سیاسی ہونا چاہیئے، یہ دانشمندی کا تقاضا کرنے کا وقت ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم خواب خرگوش میں رہیں اور جنگ و جدل سے واسطہ پڑ جائے‘‘۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے، جنھوں نے یکم جنوری سے عہدہ سنبھالا، دیگر خطرات کی نشاندہی کی اور دنیا کو درپیش چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے، مسائل کا ’’کثیر ملکی بنیادوں پر‘‘ حل تلاش کرنے پر زور دیا۔
گوئیترس نے عالمی سربراہان سے کہا کہ ’’ہم ٹکڑوں میں بٹی دنیا ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم امن والی دنیا بن جائیں‘‘۔
اُنھوں نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا میں جاری متعدد تنازعات کا ذکر کیا، اور کہا کہ ’’کسی کی جیت نہیں ہو رہی ہے‘‘، اور معاشرے کا کمزور طبقہ پس رہا ہے اور جسے مسلح جتھوں کے ہاتھوں بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، جب کہ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ’’ہر قیمت پر، چاہے صریح فوجی طریقہ ہی سہی، بس جیت کی ہماری پیاس بجھنی چاہیئے‘‘۔
دہشت گردی سے متعلق، سکریٹری جنرل نے کہا کہ کوئی وجہ یا کوئی شکایت ایسے اقدام کو درست ثابت نہیں کرسکتی، لیکن صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقدام کا من مانا انداز اپنانے سے منع کرتے ہوئے، ایسی سوچ کو غیر سود مند انداز قرار دیا ۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ ’’جب ہم یہ سمجھنے لگیں کہ لڑائی جیتنے کے لیے انسانی حقوق اور جمہوری آزادی کو پامال کیا جا سکتا ہے، تو اُسی وقت یہ لڑائی از خود شکست میں بدل جاتی ہے‘‘۔
عالمی ادارے کے سربراہ، جن کا بنیادی منصب تنازعات سے بچاؤ ہے، میانمار کے بڑھتے ہوئےانسانی بحران کا حوالہ دیا جس کے نتیجے میں گذشتہ ماہ کے دوران، 400000سے زائد روہنگیا مسلمان بھاگ کر ہمسایہ بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
حالیہ دِنوں، اُنھوں نے فوجی زیادتیوں کو نسل کشی قرار دیا تھا۔
اُنھوں نے آج منگل کے روز ملک کی فی الواقع سولین سربراہ آنگ سان سوچی کے خطاب کا ذکر کیا۔ گوئیترس نے کہا کہ ’’لیکن میں ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کردوں کی میانمار کے حکام کو فوجی کارروائیاں بند کرنی چاہئیں اور لوگوں سے بلا روک ٹوک ملنے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔ اُنھیں روہنگیا افراد کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیئے، جن کو ایک مدت سے حقوق میسر نہیں‘‘۔