چین اور امریکہ کے درمیان امکانی نئی سرد جنگ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں اور ان کی بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان خراب تعلقات کے اثرات پوری دنیا پر پڑ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے تقریباً ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوئٹرس نے دی ایسوسی ایٹڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جن مختلف اہم عالمی مسائل پر اظہار خیال کیا، ان میں کرونا عالمی وبا، آب و ہوا کا بحران اور مختلف ملکوں کے درمیان جاری تنازعات شامل تھے۔
گوئٹرس نے کہا کہ دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں کو آب و ہوا کے بحران کو حل کرنے لیے تعاون کرنا چاہیے اور تجارت، ٹیکنالوجی، انسانی حقوق، آن لائن سیکیورٹی اور جنوبی بحیرہ چین کی خود مختاری جیسے مسائل پر آگے بڑھ کر سنجیدگی سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔
اے پی سے انٹرویو میں گوئٹرس نے کہا کہ بد قسمتی سے اس وقت صرف تصادم کی فضاء موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان قابلِ عمل تعلقات قائم ہوں۔ ان سپر طاقتوں کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے درمیان تعمیری تعلقات کے بغیر بہت سے عالمی چیلنجوں سے نمٹا نہیں جا سکتا، جن میں کرونا کے خلاف عالمی سطح پر ویکیسین لگانے کی مہم اور آب و ہوا کا بحران سر فہرست ہیں۔
دو سال پہلے بھی عالمی لیڈروں کے سامنے سیکرٹری جنرل گوئٹرس نے چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرے کی نشان دہی کی تھی۔ اے پی کے ساتھ اپنے اس تازہ انٹرویو میں انہوں نے اس بات کو دوہراتے ہوئے کہا کہ دنیا اس کی وجہ سے دو حصّوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ جیو پولیٹکل ماحول اور فوجی حکمت عملی کے تناظر میں اس مخاصمت کو ختم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قیمت پر اس سرد جنگ سے بچنا ہو گا، کیوں کہ یہ ماضی سے مختلف ہو گی اور غالباً زیادہ ہی خطرناک ہو گی، جسے سنھالنا بہت مشکل ہو گا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ نئی سرد جنگ پہلی کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سب کچھ غیر یقینی ہے۔ پہلی سرد جنگ میں دونوں فریقوں کو ایٹمی تباہ کاری کے خطرے کا ادراک تھا۔ فی الوقت بحران سے نمٹنے کا کسی کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے۔
سیکرٹری جنرل گوئٹرس نے مزید کہا کہ عالمی رہنماؤں کو اس وقت دنیا کے تین بڑے مسئلوں کا سامنا ہے، ماحول کی بگڑتی ہوئی صورت حال، کرونا کی عالم گیر وبا اور طالبان کے تحت حکومت میں افغانستان کی غیر یقینی صورت حال۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ باور کرنا خام خیالی ہو گا کہ اقوام متحدہ افغانستان کو یک دم مستحکم بنا دے یا وہاں پر کوئی ایسی حکومت بنوا سکے جس میں سبھی فریق شامل ہوں یا اس بات کی ضمانت دے کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جانے لگے گا یا وہاں کسی دہشت گرد کا وجود باقی نہ رہے۔
اقوام متحدہ کی محدود اہلیت ہے اور یہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کی امداد بہم پہچانے میں ایک قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ طالبان کی توجہ سب کو ساتھ ملا کر حکومت کرنے، انسانی حقوق کے احترام، بالخصوص خواتین کے حقوق کی طرف طالبان کی توجہ مبذول کرا سکتا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلیوں اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کے حوالے سے گوئٹرس نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ عالمی سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے لیے آمادہ ہے اور امریکہ پیرس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو گیا ہے۔
کرونا وبا کو ختم کرنے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ دنیا کے ہر ملک کے ہر شہری کو ویکسین لگے اور اس کے لیے تمام ملکوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ہم نے کووڈ 19 کے خلاف کوششوں میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی۔ گوئٹرس نے مزید کہا کہ یہ بات قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہے کہ ان کے آبائی ملک پرتگال میں 80 فی صد لوگوں کو ویکسین لگے اور بہت سے افریقی ملکوں کے دو فی صد سے بھی کم لوگوں کو ویکسین میسر آئے۔ اس وائرس کو پوری دنیا سے ختم کرنا ہو گا، ورنہ یہ اپنی شکلیں بدل بدل کر یونہی پھیلتا رہے گا۔ اس کے لیے ویکسینیشن کا مبسوط عالمی پروگرام درکار ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ گوئٹرس نےکہا کہ میرےخیال میں اگر سیاسی عزم اور ارادہ ہو تو اس کو ختم کرنا ممکن ہے۔