رسائی کے لنکس

عالمی عدالت کا امریکہ کو ایران پر سے بعض پابندیاں اٹھانے کا حکم


عالمی عدالتِ انصاف کے جج سماعت کے آغاز پر کمرۂ عدالت میں کھڑے ہیں۔
عالمی عدالتِ انصاف کے جج سماعت کے آغاز پر کمرۂ عدالت میں کھڑے ہیں۔

عدالت کے مطابق یہ اس کا عبوری فیصلہ ہے جب کہ اس دوران پابندیوں کے خلافِ قانون ہونے سے متعلق اصل مقدمے کی سماعت جاری رہے گی۔

اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے امریکہ کو ایران پر عائد وہ پابندیاں اٹھانے کا حکم دیا ہے جن سے بنیادی ضروری اشیا اور مصنوعات کی درآمدات متاثر ہورہی ہیں اور شہری ہوابازی کی صنعت خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔

نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں واقع عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد لازمی ہے لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اس پر کیا ردِ عمل دے گی۔

ٹرمپ حکومت نے رواں سال مئی میں ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکلنے کا اعلان کرتے ہوئے تہران پر وہ سخت اقتصادی پابندیاں بحال کردی تھیں جو 2015ء کے جوہری معاہدے سے قبل اس پر نافذ تھیں۔

ایران نے ان پابندیوں کے خلاف جولائی میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے بدھ کو عبوری فیصلہ جاری کیا ہے۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ امریکہ کو دواؤں اور طبی آلات، خوراک، اجناس اور ایسے پرزوں اور آلات کی ایران برآمد پر عائد پابندیاں اٹھانا ہوں گی جو شہری ہوابازی کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

عدالت کے صدر عبدالقوی احمد یوسف نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کا عبوری فیصلہ ہے جب کہ اس دوران پابندیوں کے خلافِ قانون ہونے سے متعلق اصل مقدمے کی سماعت جاری رہے گی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر امریکہ چاہے تو اس عرصے کے دوران عدالت کا دائرۂ اختیار بھی چیلنج کرسکتا ہے۔

عدالت کے عبوری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ امریکی پابندیوں سے شہری ہوابازی کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں جب کہ خوراک، دواؤں اور طبی آلات جیسی بنیادی ضرورت کے سامان کی خریداری پر پابندی سے ایران کے شہریوں کی زندگیاں اور صحت سنگین خطرات سے دوچار ہوسکتی ہیں۔

عدالت نے اپنے عبوری فیصلے میں امریکہ اور ایران دونوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہیں جس سے تنازع مزید سنگین نوعیت اختیار کرجائے۔

ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے "پابندیوں کے عادی امریکہ کی ایک اور شکست" قرار دیا ہے۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ قانون کی فتح ہے اور اب عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مل کر امریکہ کے یک طرفہ فیصلوں کا راستہ روکے۔

دی ہیگ میں تعینات امریکی سفارت کاروں نے فوری طور پر عدالت کے اس فیصلے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

امکان ہے کہ امریکہ آئندہ سماعت پر عدالت کا دائرۂ اختیار چیلنج کرے گا۔ تاہم عدالت نے مقدمے کی آئندہ سماعت کے لیے فی الحال کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے۔

XS
SM
MD
LG