اسرائیل اور حماس کے درمیان دو ماہ سے جاری جنگ انسانی بنیاد پر روکنے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آج ووٹنگ متوقع ہے۔
لڑائی روکنے کی قرارداد جنرل اسمبلی میں منظور ہونے کی توقع ہے۔ جنگ بندی پر ایسے وقت ووٹنگ ہو رہی ہے جب غزہ میں بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو انسانی بحران کا سامنا ہے۔
غزہ کی محصور پٹی پر جاری لڑائی میں کئی سو مزید ہلاکتیں ہوئی ہیں اور عالمی ادارے کے مطابق اس علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کی نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق 193 رکنی جنرل اسمبلی ممکنہ طور پر منگل کو ایک مسودہ قرارداد منظور کرے گی جو اس کی زبان کی آئینہ دار ہو گی جسے گزشتہ ہفتے 15 رکنی سلامتی کونسل میں امریکہ نے بلاک کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد کی پابندی نہیں ہوتی لیکن یہ سیاسی وزن رکھتی ہیں اور عالمی خیالات کی عکاس ہوتی ہیں۔
کچھ سفارت کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ منگل کو ہونے والی ووٹنگ جنرل اسمبلی کے اکتوبر میں 'فوری، پائیدار اور پائیدار انسانی جنگ بندی' کے مطالبے سے زیادہ حمایت حاصل ہو گی۔
رائٹرز کے مطابق امریکہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد سے اب تک غزہ پر اسرائیل کے حملے میں مزید سینکڑوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
'نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے'
غزہ کی 23 لاکھ پر مشتمل آبادی میں سے زیادہ تر لوگوں کو سات اکتوبر سے جاری جنگ کے دوران نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گنجان آباد ساحلی علاقے میں پناہ یا خوراک تلاش کرنا ناممکن ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ کی نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ذمہ دار اقوام متحدہ کے ادارے نے ایکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ "بھوک ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔"
غزہ کے باشندوں نے کہا جو لوگ جنگ میں بار بار بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں بمباری کے علاوہ بھوک اور سردی سے مر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے امدادی ٹرکوں کی لوٹ مار اور آسمان سے چھوتی قیمتوں کو بیان کیا۔
فلسطینی ہلاکتیں اور اسرائیل کا مؤقف
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں لوگوں کو نقل مکانی کے لیے اس کی ہدایات عام شہریوں کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں شامل ہیں۔
تل ابیب کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیلی کے جنوبی علاقوں پر حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس کے جنگجوؤں نے تقریباً 240 کو یرغمال بنایا تھا۔
اس کے بعد ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران حماس نے تقریباً 100 یرغمالوں کو رہا کر دیا تھا۔
غزہ کی حماس کے زیر اتنظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کے جوابی حملے میں 18,205 افراد ہلاک اور تقریباً 50,000 زخمی ہوئے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں امریکہ کی اسرائیل کے لیے حمایت کا امکان
جنرل اسمبلی میں جنگ بندی پر ووٹنگ سلامتی کونسل کے 12 ایلچیوں کے غزہ کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ کے مصری حصے کا دورہ کرنے کے ایک دن بعد ہو رہی ہے۔
رفع غزہ میں داخلے کی واحد گزرگاہ ہے جہاں سے محدود انسانی امداد اور ایندھن جنگ سے متاثرہ علاقے پہنچ رہا ہے۔ امریکہ نے رفح کراسنگ کے دورے پر اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو سات اکتوبر کے حملوں کے جواب میں اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔
پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں یہودیوں کے ہنوکا تہوار کی تعطیل کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل سے ان کی وابستگی 'غیر متزلزل' ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو دنیا میں کوئی بھی یہودی محفوظ نہ ہوتا۔ انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات کی طرف بھی اشارہ کیا، جو ان کے بقول اس وقت ایک 'مشکل مقام' پر ہیں۔
امریکہ کا مؤقف
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل اس امریکی پالیسی سے مستثنیٰ نہیں ہے جس کے تحت امریکی ہتھیار حاصل کرنے والے کسی بھی ملک کو جنگی قوانین کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔
ترجمان کا بیان واشنگٹن کے اسرائیل کو تقریباً 14000 ٹینک گولے کانگریس کے جائزے کے بغیر فروخت کرنے کے ہنگامی طریقہ کار کے استعمال کے بعد آیا ہے۔
ملر نے کہا کہ امریکہ اس تنازع میں ہونے والی ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔ "ہم اسرائیلی حکومت کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔"
جنگ میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ اس کی مزید جانچ پڑتال ہو رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح اور کہاں امریکہ سے حاصل کردہ ہتھیاروں کا استعمال کرتا ہے۔
تاہم، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو فوجی امداد پر شرائط عائد کرنے یا اس میں سے کچھ روکنے پر غور کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ان تصاویر کو "انتہائی پریشان کن" پایا ہے جن میں غزہ میں زیر حراست فلسطینی مردوں کو نیم برہنہ دکھایا گیا ہے۔
یہ تصاویر گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں اور امریکہ نے اسرائیل سے ان تصاویر کے ارد گرد کے حالات واضح کرنے کو کہا ہے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ ان افراد کے کپڑے یہ یقینی بنانے کے لیے اتروائے گئے کہ کہیں وہ دھماکہ خیز مواد یا ہتھیار تو نہیں چھپا رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس نے پیر کو یہ بھی کہا کہ اسے ان رپورٹوں پر تشویش ہے کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں اکتوبر میں ہونے والے حملے میں امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ سفید فاسفورس گولہ بارود کا استعمال کیا اور اس سلسلے میں اس نے مزید معلومات کا کہا ہے۔
فاسفورس گولہ بارود، جو قانونی طور پر میدان جنگ میں دیگر استعمال کے علاوہ دھوئیں کی اسکرین بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، شدید جلنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسرائیل نے کہا کہ ہیومن رائٹس واچ کا یہ الزام کہ وہ غزہ اور لبنان میں سفید فاسفورس گولہ بارود استعمال کرتا ہے، 'بالکل غلط' ہے۔
اس خبر میں زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم