واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں سالانہ اجلاس کا امریکہ کے شہر نیویارک میں آغاز ہوگیا ہے جس سے کئی ممالک کے سربراہان خطاب کریں گے۔
اجلاس کا آغاز منگل کو نیویارک کے مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں سیکرٹری جنرل بان کی مون کے خطاب سے ہوا۔
بان کی مون نے جہاں ایک طرف غربت کے خاتمے اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے معمول کے مسائل پر بات کی وہیں دنیا میں جاری چند اہم تنازعات کو بھی اپنی تقریر کا موضوع بنایا۔
شام میں جاری خانہ جنگی کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور سیاسی حل کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اگرچہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر دنیا کی توجہ مرکوز ہے لیکن وہاں زیادہ تر ہلاکتیں عام ہتھیاروں سے ہوئی ہیں۔ انہوں نے تنازع کے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ تشدد کو ہوا دینے سے گریز کریں اور عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی فریق کو ہتھیار فراہم نہ کریں۔
خیال رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں روس صدر بشار الاسد کی حکومت کو جب کہ امریکہ، چند یورپی ممالک اور خلیجی عرب ریاستیں باغیوں کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں عالمی ادارے کے سربراہ نے امید ظاہر کی کہ کیمیائی ہتھیاروں پر سلامتی کونسل جلد ایک ایسی قرارداد منظور کرے گی جس میں شام کو مناسب اقدامات اٹھانے کا پابند کیا جائے گا۔
بان کی مون نے شام کی حکومت اور باغیوں سے اپیل بھی کی کہ وہ امدادی کارکنوں کے راستے میں مشکلات حائل نہ کریں اور اور طبی عملے اور مراکز کو نشانہ بنانا بند کردیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت کے دوبارہ آغاز کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بان کی مون کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستوں کی بنیاد پر حل نکالنے کے لیے وقت گزرتا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بعد روایت کے مطابق سب سے پہلے جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر اور ان کے بعد برازیل، اور پھر میزبان ملک یعنی امریکہ کے صدور کے خطابات ہوئے۔
چوں کہ اقوام متحدہ کے پہلے اجلاس میں پہلا خطاب برازیل کے مندوب نے کیا تھا اس لیے ہر سال جنرل اسمبلی کے صدر کے بعد پہلا خطاب کرنے کی دعوت برازیل کے رہنما کو دی جاتی ہے۔
اپنے خطاب میں برازیل کی صدر دیلما روزیف نےامریکہ کی جانب سے برازیل اور دیگر ملکوں کی جاسوسی سے متعلق تازہ انکشافات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "عالمی قوانین کی خلاف ورزی" قرار دیا۔
صدر روزیف کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے مختلف ممالک کی انٹرنیٹ کے ذریعے مبینہ جاسوسی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کے لیے عالمی سطح پر کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
صدر براک اوباما نے 43 منٹ طویل اپنے خطاب میں عرب دنیا میں جاری تنازعات، دنیا میں امریکہ کے کردار اور مستقبل کی ترجیحات پر گفتگو کی۔
امریکی صدر نے اپنی حکومت کا مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے اور فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان قیامِ امن پر خصوصی توجہ دیں گے۔ کیونکہ ان کے خیال میں ان کے حل سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی طرف اہم پیش رفت متوقع ہے۔
صدر اوباما نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقوں کو امن سے زندگی گزارنے کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ سمیت اسرائیل کے تمام دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اسرائیل کو سمجھائیں کہ اس کی سلامتی کا دارومدار بھی ایک فلسطینی ریاست کے قیام میں پنہاں ہے۔
پہلے روز جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں ترکی کے صدر عبداللہ گل اور فرانس کے صدر فرانسس اولاں بھی شامل تھے۔
ترک صدر نے اپنے خطاب میں شام میں جاری قتل و غارت روکنے میں ناکامی پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر کڑی نکتہ چینی کی اور اسے "باعثِ شرم" قرار دیا۔
اجلاس کا آغاز منگل کو نیویارک کے مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں سیکرٹری جنرل بان کی مون کے خطاب سے ہوا۔
بان کی مون نے جہاں ایک طرف غربت کے خاتمے اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے معمول کے مسائل پر بات کی وہیں دنیا میں جاری چند اہم تنازعات کو بھی اپنی تقریر کا موضوع بنایا۔
شام میں جاری خانہ جنگی کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور سیاسی حل کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اگرچہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر دنیا کی توجہ مرکوز ہے لیکن وہاں زیادہ تر ہلاکتیں عام ہتھیاروں سے ہوئی ہیں۔ انہوں نے تنازع کے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ تشدد کو ہوا دینے سے گریز کریں اور عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی فریق کو ہتھیار فراہم نہ کریں۔
خیال رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں روس صدر بشار الاسد کی حکومت کو جب کہ امریکہ، چند یورپی ممالک اور خلیجی عرب ریاستیں باغیوں کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں عالمی ادارے کے سربراہ نے امید ظاہر کی کہ کیمیائی ہتھیاروں پر سلامتی کونسل جلد ایک ایسی قرارداد منظور کرے گی جس میں شام کو مناسب اقدامات اٹھانے کا پابند کیا جائے گا۔
بان کی مون نے شام کی حکومت اور باغیوں سے اپیل بھی کی کہ وہ امدادی کارکنوں کے راستے میں مشکلات حائل نہ کریں اور اور طبی عملے اور مراکز کو نشانہ بنانا بند کردیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت کے دوبارہ آغاز کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بان کی مون کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستوں کی بنیاد پر حل نکالنے کے لیے وقت گزرتا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بعد روایت کے مطابق سب سے پہلے جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر اور ان کے بعد برازیل، اور پھر میزبان ملک یعنی امریکہ کے صدور کے خطابات ہوئے۔
چوں کہ اقوام متحدہ کے پہلے اجلاس میں پہلا خطاب برازیل کے مندوب نے کیا تھا اس لیے ہر سال جنرل اسمبلی کے صدر کے بعد پہلا خطاب کرنے کی دعوت برازیل کے رہنما کو دی جاتی ہے۔
اپنے خطاب میں برازیل کی صدر دیلما روزیف نےامریکہ کی جانب سے برازیل اور دیگر ملکوں کی جاسوسی سے متعلق تازہ انکشافات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "عالمی قوانین کی خلاف ورزی" قرار دیا۔
صدر روزیف کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے مختلف ممالک کی انٹرنیٹ کے ذریعے مبینہ جاسوسی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کے لیے عالمی سطح پر کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
صدر براک اوباما نے 43 منٹ طویل اپنے خطاب میں عرب دنیا میں جاری تنازعات، دنیا میں امریکہ کے کردار اور مستقبل کی ترجیحات پر گفتگو کی۔
امریکی صدر نے اپنی حکومت کا مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے اور فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان قیامِ امن پر خصوصی توجہ دیں گے۔ کیونکہ ان کے خیال میں ان کے حل سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی طرف اہم پیش رفت متوقع ہے۔
صدر اوباما نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقوں کو امن سے زندگی گزارنے کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ سمیت اسرائیل کے تمام دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اسرائیل کو سمجھائیں کہ اس کی سلامتی کا دارومدار بھی ایک فلسطینی ریاست کے قیام میں پنہاں ہے۔
پہلے روز جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں ترکی کے صدر عبداللہ گل اور فرانس کے صدر فرانسس اولاں بھی شامل تھے۔
ترک صدر نے اپنے خطاب میں شام میں جاری قتل و غارت روکنے میں ناکامی پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر کڑی نکتہ چینی کی اور اسے "باعثِ شرم" قرار دیا۔