سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کی پہلی آزادنہ تحقیقاتی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ اس قتل کی ذمہ داری سعودی ولی عہد پر عائد کرنے کے لیے کافی شواہد ملے ہیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ایک آزاد ماہر نے، جو سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کی چھان بین کر رہی ہیں، یہ سفارش کی ہے کہ اس ہلاکت میں، سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کے کسی ممکنہ کردار کی چھان بین کی جائے۔ جس کی واضح شہادت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ یہ واضح نہیں کر سکتیں کہ کس نے اس قتل کا حکم دیا، تاہم سعودی مملکت واضح طور پر اس کی ذمے دار ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مملکت اور سعودی شہزادہ، قانون کی خلاف ورزی سے آگاہ نہ ہوں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان اور ان کے بیرون ملک ذاتی اثاثوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
معروف قلم کار اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خشوگی اکتوبر 2018 میں استبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں داخل ہونے کے بعد ہلاک کر دیے گئے تھے۔ ابتدا میں ریاض نے اس واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ بعد میں حکام نے تسلیم کیا تھا کہ ان کے قتل کا ذمہ دار سعودی شہزادے کے محافظوں کا ایک گروپ ہے۔
سعودی اٹارنی جنرل نے بعد میں اعتراف کیا کہ خشوگی کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔
سی این این کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سعودی شہزادے کے قصور کا تعین نہیں کیا گیا، لیکن اقوام متحدہ کے رپورٹر کلامارڈ کہتے ہیں کہ ایسے مستند شواہد موجود ہیں کہ جن کی بنیاد پر کسی بااختیار ادارے کے تحت مزید تحقیقات ہونی چاہنے تاکہ واقعہ کی مجرمانہ ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے۔
کلامارڈ مزید کہتی ہیں کہ اعلی ترین سطح پر ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی بجائے چند اعلیٰ سعودی حکام کے خلاف حالیہ بین الاقوامی پابندی کافی نہیں ہے۔