عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ تنازعات کا شکار ملکوں میں 2018 سے 2020 کے دوران 700 سے زیادہ ہیلتھ ورکرز اور مریض ہلاک اور 2 ہزار سے زیادہ زخمی اور صحت کے سینکڑوں مراکز تباہ ہو گئے۔
جنیوا سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار لیزا شلائین نے خبر دی کہ جنگ زدہ اور تنازعات کا شکار 14 ملکوں کے بارے میں تین سال پر محیط ایک جائزہ رپورٹ تیار کی گئی ہے جس کے مطابق صحت کا شعبہ مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ جن ملکوں کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں ایتھوپیا، یمن، شام، موزمبیق، مقبوضہ فلسطینی علاقے اور میانمار وغیرہ شامل ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت نے اس سال بھی 14 ملکوں میں طبی عملے کے خلاف حملوں کے 588 واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن کے نتیجے میں 114 ہیلتھ ورکرز اور مریض ہلاک اور 278 زخمی ہوئے۔
عالمی ادارۂ صحت کے ہیلتھ ایمرجنسی شعبے کے ڈائریکٹر الطاف موسوی کا کہنا ہے کہ اس کے مضمرات خاصے اہم اور چونکا دینے والے ہیں، خاص طور پر کرونا وائرس کے جاری بحران کے دور میں یہ واقعات اور بھی تشویش ناک ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حالات میں طبی عملے کی نہ صرف ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے، بلکہ کام کرنے کا جذبہ بھی ماند پڑتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ صحت کے اس بحران سے نمٹنے لیے وسائل بھی دستیاب نہیں ہیں۔
موسوی کہتے ہیں کہ صرف ایک واقعے کے پورے نظام پر طویل المعیاد اثرات رونما ہوتے ہیں، جب ایک ہیلتھ ورکر ہلاک یا زخمی ہوتا ہے تو پھر اس کی جگہ متبادل ہیلتھ ورکر لانا خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔
ان کے الفاظ میں، ان پرآشوب حالات میں پورا نظام درہم برہم ہو رہا ہے اور اس کی درستگی میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اس کے لیے کثیر مالی وسائل کا بندوبست ایک الگ مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور اس عالمگیر وبا کے زمانے میں طبی شعبے کے کارکنوں کے تحفظ پر خصوصی توجہ دینے کی ضررورت ہے۔ اسپتال، طبی مراکزکو قائم اور صحیح و سالم رکھنا بھی لازم ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے لیے جو اہم سہولتیں ہیں، ان کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کی جانی چاہیے۔
عالمی اداہ صحت نے تنازعات میں پھنسے ہوئے ملکوں کے تمام متحارب فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صحت سے متعلقہ جملہ خدمات کے تحفظ کا خاص خیال رکھیں اور ہیلتھ ورکرز کو محفوظ طور پر اپنے فرائض انجام دینے کے لیے ساز گار حالات پیدا کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے والے ان کارکنوں کو بلا خوف و خطر خدمات انجام دینے کا موقع فراہم کیا جائے۔