بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ سالوں میں عالمی سطح پر بے روزگاری میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ آئی ایل او کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور عدم مساوات کی وسیع ہوتی ہوئی خلیج کئی معاشروں میں شورش کا باعث بن سکتی ہے۔
آئی ایل او کی طرف سے کی گئی پیش گوئی کے مطابق دنیا بھر میں 2019ء تک 21 کروڑ 20 لاکھ افراد بے روزگار ہو جائیں گے جبکہ موجود بے روزگار افراد کی تعداد 20 کروڑ 10 لاکھ ہے۔
“عالمی بے روزگاری اور سماجی منظرنامہ؛ 2015 کے رحجانات" نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2008ء میں عالمی معاشی بحران کے شروع ہونے کے بعد سے 6 کروڑ 10 لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ معمولی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ عشرے کے اختتام تک بے روزگاری کی سطح میں اضافہ ہو گا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی گئی ایک ایسی ہی رپورٹ میں آئندہ دو سال تک دنیا بھر میں معتدل معاشی ترقی کا اندازہ لگایا ہے۔
آئی ایل او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سماجی اضطراب میں اضافہ 15 سال سے 24 سال کی عمر تک کے نوجوانوں کی وجہ سے ہو گا جو بڑے افراد کی نسبت ممکنہ طور پر تین گنا زیادہ بے روزگاری کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ 2014 میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 13 فیصد تھی۔
آئی ایل او کے ریسرچ چیف ریماند توریس نے کہا کہ ان کی تنظیم اور بین الاقوامی فنڈ جیسی دوسرے تنظیموں کے تجزیے میں سماجی بے چینی اور روزگار کی مارکیٹ کے درمیان ایک ناقابل تردید تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے۔
معاشرتی بے چینی میں اضافہ بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہوا اور 2008ء میں معاشی بحران کے شروع ہونے کے بعد اس میں 10 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائیڈر کا کہنا ہے کہ 31 کروڑ 90 لاکھ کارکن یا دنیا بھر میں 10 میں سے ایک کارکن روانہ 1.25 ڈالر سے بھی کم کماتا ہے اور وہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزگار کی شرح میں بہتری آئی ہے جبکہ بے روزگاری کی شرح کئی ترقی یافتہ ممالک اور خاص طور پر یورپ میں کافی زیادہ ہے۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کے تین چوتھائی غیر محفوظ برسر روزگار افراد کا تعلق جنوبی ایشیا اور افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے سے ہے۔
رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری رہا تو کئی معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک اور کئی ایشیائی ممالک میں روزگار کے مواقع بہتر ہو جائیں گے۔