اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے خبر دار کیا ہے کہ اگر فلسطینی علاقے غزہ کی صورتِ حال کو فوری طور پر مستحکم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو خطے کو ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے 'یو این آر ڈبلیو اے' کی غزہ شاخ کے سربراہ رابرٹ ٹرنرکے بقول رواں سال جولائی اور اگست میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں ہونے والے مالی نقصانات ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں جوعلاقے میں کسی انسانی المیے کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔
منگل کو غزہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے رابرٹ ٹرنر نے کہا کہ اگر حالات اچھے رہے تو حالیہ جنگ کے دوران غزہ میں ہونے والی تباہی کے ازالے اور علاقے کی تعمیرِ نو کے لیے دو سے تین سال کا وقت درکار ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں کسی مستحکم فلسطینی حکومت کا وجود نہیں اور فلسطینی دھڑوں کی مشترکہ قومی حکومت غزہ میں تاحال غیر موثر ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ غزہ کی تعمیرِ نو خطے کے سیاسی استحکام سے مشروط ہے جس کے حصول کے لیے فلسطین کی قومی حکومت کو موثر اور بااختیار بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ قومی حکومت کی عدم فعالیت، سیاسی عدم استحکام اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ ختم نہ کرنے کا نتیجہ ایک اور جنگ کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے جس کے خطے کے امن پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ کا محاصرہ نرم کرنے اور تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کے لیے تعمیراتی سامان کی غزہ منتقلی کی اجازت دینے کا عندیہ دیا ہے لیکن اسرائیلی حکومت نے ان دونوں اقدامات کوغزہ کا مکمل کنٹرول مزاحمتی تنظیم 'حماس' سے لے کر قومی حکومت کے حوالے کرنے سے مشروط کر رکھا ہے۔
لیکن 'حماس' اور مغربی کنارے پر حکمران 'فلسطینی اتھارٹی' کے درمیان غزہ میں حماس کی حکومت کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور بعض انتظامی نوعیت کے معاملات پر اختلافات کے باعث قومی حکومت تاحال غزہ کا کنٹرول نہیں سنبھال سکی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیےآئندہ چھ ماہ تک روزانہ 400 ٹرک تعمیراتی سامان کی ضرورت پڑے گی۔
لیکن فلسطینی دھڑوں کے باہمی اختلافات اور اسرائیل کی کڑی ناکہ بندی کے باعث فی الحال روزانہ صرف 75 ٹرک تعمیراتی سامان لے کر غزہ پہنچ رہے ہیں جس کے باعث علاقے کے عوام میں تعمیراتی عمل کی سست روی پر غصے اور بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔