رسائی کے لنکس

بلوچستان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 60، اقوام متحدہ کی شدید مذمت ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ


26 اگست 2024 کو صوبہ بلوچستان کے ضلع موسی خیل میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں۔ فوٿو اے ایف پی
26 اگست 2024 کو صوبہ بلوچستان کے ضلع موسی خیل میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں۔ فوٿو اے ایف پی
  • 26 اگست کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 60 ہو گئی ہے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے زور دیا ہے کہ شہریوں کے خلاف حملے ناقابل قبول ہیں۔ اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ تحقیقات کرائے اور ذمہ داروں کے محاسبےکو یقینی بنائے۔
  • موسیٰ خیل میں مسافر گاڑیوں اور کوئلے کے ٹرکوں سے شہریوں کو اتار کر قتل کیا گیا ہے۔حکام نے موسیٰ خیل میں 23 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
  • 21 حملہ آور بھی مارے گئے ہیں۔
  • قلات میں انتظامیہ نے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ رات گئے جھڑپیں ہوئیں جن میں لیویز کے چار اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
  • بولان سے چھ افراد کی لاشیں ملی ہیں جن کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
  • کوئٹہ، گوادر، قلات، مستونگ، لسبیلہ، سبی اور تربت میں سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے اور فائرنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
  • قلات میں حملوں کے باعث کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
  • گوادر کے علاقے جیوانی میں بھی مسلح افراد نے ایک تھانے کو نشانہ بنایا۔
  • حملوں کے سبب قومی شاہراہ پر مستونگ میں مسافر بسیں اور دیگر گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔

26 اگست کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہو گئی ہے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ موسیٰ خیل میں مسافروں کو گاڑیوں اور کوئلے کے ٹرکوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجماں اسٹیفن دوجارک نے کہا ہےکہ سیکرٹری جنرل بلوچستان میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل نے زور دیا ہے کہ شہریوں کے خلاف حملے ناقابل قبول ہیں۔ وہ لواحقین سے اپنی دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحقیقات کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔

یہ حملے بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے ہیں۔

بی ایل اے نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے 'آپریشن ہیروف' کا نام دیا ہے۔

بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بی ایل اے کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے لسبیلہ میں فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا۔

بلوچستان کے پنجاب سے متصل علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے 23 مسافروں کو بسوں سے اُتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیا۔

ضلع موسیٰ خیل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ایوب اچکزئی نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں۔

خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قومی شاہراہ کو ناکہ لگا کر بند کر دیا۔ یہ شاہراہ بلوچستان کو پنجاب سے ملاتی ہے۔

مقامی افراد نے اطلاع دی ہے کہ اس مقام پر مسلح افراد نے دو درجن سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو نذرِ آتش بھی کیا ہے۔

ہلاک ہونے والوں کا تعلق پنجاب کے ضلعوں وہاڑی اور فیصل آباد سے تھا۔ انکی میتوں کو پنجاب بھیج دیا گیا ہے۔

دو سے تین مقامات پر حملے کیے گئے: صوبائی حکومت

ابتدا میں بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہ رند نے کہا ہے کہ دو سے تین مقامات پر حملے کیے گئے ہیں۔ دو مقامات پر سیکیورٹی اداروں نے حملوں کو ناکام بھی بنایا ہے۔

ان کے بقول ایسے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ تنظیم کوئی بھی ہو اگر موسیٰ خیل جیسی کارروائیاں کرتی ہے تو وہ دہشت گرد ہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس صورتِ حال کا سامنا ہے اس میں سیاسی اسٹیک ہولڈرز سمیت سب کو مل کر کوشش کرنی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل کا علاقہ ڈی جی خان سے منسلک ہے۔ ایسے پہاڑی علاقوں میں شاہراہیں قومی شاہراہیں نہیں ہوتیں تو یہاں سیکیورٹی کم ہوتی ہے۔ عسکریت پسندوں کا موسیٰ خیل میں حملہ سیکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کی کوتاہی ہے کہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارروائی کی گئی۔

صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے موسیٰ خیل واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے بیان میں کہا کہ معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہو گا۔ ملک میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی قبول نہیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں موسی خیل میں 23 افراد کے قتل کے واقعے کی مذمت کی ہے۔

انہوں نےکہا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار عبرت ناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے۔

فورم

XS
SM
MD
LG