اسلام آباد —
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین پاکستان کے شورش زدہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں میں شامل خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کر رہا ہے۔
شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ اور اس سے ملحقہ وفاق کے زیرِ اننتظام قبائلی علاقے گزشتہ کئی برسوں سے شدت پسندی کی لپیٹ میں ہیں، جو متاثرہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ ہے۔
اقوامِ متحدہ اور حکومت پاکستان کے اندازوں کے مطابق شورش کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ 10 لاکھ ہے، جن کی اکثریت نسبتاً پُر امن علاقوں میں عزیز و اقارب یا کرائے پر حاصل کیے گئے مکانات میں مقیم ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی اسلام آباد میں ترجمان دنیا اسلم خان کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد کا 70 فیصد سے زائد حصہ خواتین اور 18 برس سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے، جنھیں ’’خصوصی توجہ اور دیکھ بھال‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خیبر پختون خواہ میں قائم تین امدادی کیمپوں میں اُن کے ادارے نے کمیونٹی مراکز قائم کیے ہیں جہاں خواتین اپنے مسائل پر بات چیت کر سکتی ہیں۔
’’اس کے علاوہ گریویئنس ڈیسک بنائے گئے ہیں جہاں بیوائیں یا وہ خواتین جو اپنے گھرانوں کی سربراہ ہیں اور اُنھیں راشن کے حصول یا اندراج کے سلسلے میں مسائل کا سامنا ہے تو ایسی خواتین اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔‘‘
دنیا اسلم خان کا کہنا تھا کہ ایسی خواتین جو کسی بھی وجہ سے ان مراکز سے رجوع نہیں کر سکتیں، اُن کی مدد کے لیے یو این ایچ سی آر نے ’’موبائل پروٹیکشن ٹیمز‘‘ بھی تشکیل دی ہیں، جو اطلاع موصول ہونے پر خود متعلقہ افراد سے رابطہ کرکے اُن کی مشکلات دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) بھی ان امدادی کیمپوں میں عارضی اسکول چلا رہا ہے تاکہ نقل مکانی کرنے والے بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
یو این ایچ سی آر کی ترجمان نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران کسی شورش زدہ علاقے سے مزید افراد کے نقل مکانی کرنے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسے علاقے جہاں حکومت کی عمل داری بحال کی جا چکی ہے وہاں متاثرین کی واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن یہ عمل خالصتاً رضا کارانہ ہوتا ہے۔
’’(واپسی کے عمل کے لیے) صرف علاقے سے شدت پسندی کا خاتمہ ہی مقصد نہیں ہے، اُن علاقوں میں بنیادی ضروریاتِ زندگی، مثلاً سر چھپانے کے لیے جگہ، پینے کا پانی اور بچوں کے لیے اسکول کی موجودگی بھی ضروری ہے۔‘‘
دنیا اسلم خان کے مطابق یو این ایچ سی آر سعودی عرب کی مالی معاونت سے جنوبی وزیرستان، کرم اور مہمند کے قبائلی علاقوں میں متاثرین کے لیے ٹھکانے قائم کر رہا ہے۔
شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ اور اس سے ملحقہ وفاق کے زیرِ اننتظام قبائلی علاقے گزشتہ کئی برسوں سے شدت پسندی کی لپیٹ میں ہیں، جو متاثرہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ ہے۔
اقوامِ متحدہ اور حکومت پاکستان کے اندازوں کے مطابق شورش کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ 10 لاکھ ہے، جن کی اکثریت نسبتاً پُر امن علاقوں میں عزیز و اقارب یا کرائے پر حاصل کیے گئے مکانات میں مقیم ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی اسلام آباد میں ترجمان دنیا اسلم خان کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد کا 70 فیصد سے زائد حصہ خواتین اور 18 برس سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے، جنھیں ’’خصوصی توجہ اور دیکھ بھال‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خیبر پختون خواہ میں قائم تین امدادی کیمپوں میں اُن کے ادارے نے کمیونٹی مراکز قائم کیے ہیں جہاں خواتین اپنے مسائل پر بات چیت کر سکتی ہیں۔
’’اس کے علاوہ گریویئنس ڈیسک بنائے گئے ہیں جہاں بیوائیں یا وہ خواتین جو اپنے گھرانوں کی سربراہ ہیں اور اُنھیں راشن کے حصول یا اندراج کے سلسلے میں مسائل کا سامنا ہے تو ایسی خواتین اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔‘‘
دنیا اسلم خان کا کہنا تھا کہ ایسی خواتین جو کسی بھی وجہ سے ان مراکز سے رجوع نہیں کر سکتیں، اُن کی مدد کے لیے یو این ایچ سی آر نے ’’موبائل پروٹیکشن ٹیمز‘‘ بھی تشکیل دی ہیں، جو اطلاع موصول ہونے پر خود متعلقہ افراد سے رابطہ کرکے اُن کی مشکلات دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) بھی ان امدادی کیمپوں میں عارضی اسکول چلا رہا ہے تاکہ نقل مکانی کرنے والے بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
یو این ایچ سی آر کی ترجمان نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران کسی شورش زدہ علاقے سے مزید افراد کے نقل مکانی کرنے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسے علاقے جہاں حکومت کی عمل داری بحال کی جا چکی ہے وہاں متاثرین کی واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن یہ عمل خالصتاً رضا کارانہ ہوتا ہے۔
’’(واپسی کے عمل کے لیے) صرف علاقے سے شدت پسندی کا خاتمہ ہی مقصد نہیں ہے، اُن علاقوں میں بنیادی ضروریاتِ زندگی، مثلاً سر چھپانے کے لیے جگہ، پینے کا پانی اور بچوں کے لیے اسکول کی موجودگی بھی ضروری ہے۔‘‘
دنیا اسلم خان کے مطابق یو این ایچ سی آر سعودی عرب کی مالی معاونت سے جنوبی وزیرستان، کرم اور مہمند کے قبائلی علاقوں میں متاثرین کے لیے ٹھکانے قائم کر رہا ہے۔