یوکرین پر روس کے حملے کے ایک سال کے بعد، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اگلے ہفتے قرارداد کے ایک مسودے پر ووٹ دے گی جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق "جلد سے جلد، ایک جامع، منصفانہ اور دیرپا امن تک پہنچنے کی ضرورت" پر زور دیا جائے گا۔
اس قرار داد میں ایک بار پھر ماسکو سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے اور دشمنی کو روکنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
توقع ہے کہ 193 رکنی جنرل اسمبلی میں 24 فروری کو جنگ کے آغاز کی پہلی برسی کے موقع پر قراردار پر ووٹنگ سے قبل درجنوں ملکوں کے نمائندے دو روز تک تقاریر کریں گے۔ قرار داد پر جمعرات کو ووٹنگ کا امکان ہے۔
یوکرین اور اس کے حامیوں کو امید ہے کہ جنرل اسمبلی کے تقریباً تین چوتھائی ووٹ ان کے حق میں آئیں گے جس سے روس کی سفارتی تنہائی میں مزید اضافہ ہو گا۔
یوکرین پر اقوام متحدہ کی کارروائی کے حوالے سے جنرل اسمبلی توجہ کا مرکز ہے کیونکہ 15 رکنی سلامتی کونسل روس کے ویٹو کی وجہ سے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سلامتی کونسل میں امریکہ، چین، فرانس، برطانیہ اور روس کے پاس ویٹو پاور ہے۔
سلامتی کونسل نے گزشتہ سال یوکرین پر درجنوں اجلاس منعقد کیے ہیں اورآئندہ جمعے کو وزارتی سطح کے ایک اجلاس میں یوکرین جنگ پر دوبارہ بات چیت کی جائے گی ۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ امکان نہیں ہے کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
قانونی لحاظ سے جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل کرنے کی پابندی نہیں ہوتی لیکن ان کا ایک سیاسی وزن ہوتا ہے۔
یوکرین جنرل اسمبلی کی قرار داد میں صدر زیلنسکی کے تجویز کردہ 10 نکات شامل کرانا چاہتا تھا لیکن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے قرارداد کو آسان بنایا گیا ۔اس کے چند ہفتوں کے بعد ایک اور قرارداد میں 140 ملکوں نے انسانی امداد تک رسائی اور شہریوں کو تحفظ دینے کے حق میں ووٹ دیا۔ ان قرارداد ں سے روس سفارتی محاذ پر تنہائی کا شکار دکھائی دیا۔
اس کے بعد 143 ممالک نے 12 اکتوبر کو یوکرین کے چار علاقوں پر جزوی طور پر روس کے قبضے اور الحاق کی مذمت میں ووٹ دیا اور تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ روس کے اس اقدام کو تسلیم نہ کریں۔
روس کا کہنا ہے کہ اس نے یوکرین کو "غیر فعال" کرنے اور روسی بولنے والوں کے تحفظ کے لیے "خصوصی فوجی آپریشن" کا آغاز کیا تھا۔ روس مغربی طاقتوں پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ یوکرین کو مسلح کر کے اور ماسکو پر پابندیاں لگا کر اس کے خلاف پراکسی جنگ میں ملوث ہیں۔
امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے اس حملے کو ایک خودمختار ملک کے خلاف بلا اشتعال زمین پر قبضہ کرنے کی کارروائی قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے گزشتہ ماہ کہا کہ "جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کر رہا ہو تو آپ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔یہ اقوام متحدہ کے چارٹر پر حملہ ہے۔ یہ ایک آزاد ملک کی خودمختاری پر حملہ ہے۔ یہ ایک پڑوسی پر حملہ ہے۔
اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔