رسائی کے لنکس

طالبان خواتین کے خلاف 'خطرناک مہم' ختم کریں: اقوامِ متحدہ


افغانستان میں ایک خاتون پہرے پر کھڑے ایک طالبان جنگجو کے قریب سے گزر رہی ہیں۔
افغانستان میں ایک خاتون پہرے پر کھڑے ایک طالبان جنگجو کے قریب سے گزر رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ اور عالمی امدادی تنظیموں کے اہلکاروں نے حالیہ چند روز کے دوران افغان طالبان سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کو درپیش سنگین انسانی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کی تعلیم اور امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے پر عائد پابندی ختم کریں۔

اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے افغان خواتین کو عوامی زندگی سے باہر رکھنے کی طالبان کی مہم کو 'خطرناک' قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے افغانستان میں تعینات ایلچی مارکس پوٹزل نے دارالحکومت کابل میں طالبان کے سینئر وزراء سے ملاقاتیں کیں اور ان کے سامنے خواتین کے حقوق کی حفاظت سے متعلق عالمی ادارے کا مؤقف رکھا۔

اتوار کو پوٹزل نے طالبان کے اُس وزیر سے بھی ملاقات کی جس کی وزارت 'نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام' کے نام سے جانی جاتی ہے، جسے طالبان کے بیان کردہ اسلام کی تشریح اور نفاذ کا کام سونپا گیا ہے۔

پوٹزل کے دفتر کے مطابق انہوں نے طالبان کے وزیر محمد خالد حنفی پر واضح کیا کہ "طالبان کی طرف سے خواتین کے خلاف تازہ ترین امتیازی پابندیاں امدادی سرگرمیوں کو روکتی ہیں اور اس سے (افغانستان کی معیشت) کو نقصان پہنچے گا۔"

عالمی ادارے کے اہل کار کی طالبان عہدیداروں کے ساتھ بات چیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 13 جنوری کو ہونے والے اجلاس سے قبل ہوئی ہے۔

سلامتی کونسل افغانستان میں امدادی کارکنوں پر پابندی پر بحث کے لیے نجی طور پر ملاقات کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

کابل میں ہونے والی ملاقاتیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب طالبان حکمرانوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف نافذ کی گئی پابندی کو ختم کریں۔

طالبان نے سخت گیر پالیسی اپناتے ہوئے گزشتہ ماہ افغان خواتین عملے کو قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے لیے کام کرنے سے اچانک منع کر دیا تھا اور کہا تھا کہ خواتین سرکاری احکامات کے مطابق اسلامی ہیڈ اسکارف پہننے کی پابندی نہیں کر رہی تھیں۔

اس اقدام کے جواب میں اقوامِ متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے لیکن طالبان کے اقدامات انسانی ہمدردی کے متعدد پروگراموں کو مؤثر طریقے سے معطل کرنے کی وجہ بنے ہیں۔

افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیوں کے تناظر میں بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی چیف کمیونیکیٹر میلیسا فلیمنگ نے حالیہ تبصروں میں کہا کہ "ملک کے ڈی فیکٹو حکام کی طرف سے خواتین کو عوامی زندگی سے بتدریج مٹانے اور ان کے تعاون سے انکار کرنے کی منظم مہم خود کو نقصان پہنچانے کا ایک غیر معمولی عمل ہے۔"

'افغانستان میں خواتین پر پابندیاں اسلام نہیں ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:02 0:00

اتوار کو نارویجن ریفیوجی کونسل (این آر سی) کے سیکریٹری جنرل خواتین این جی او ورکرز پر پابندی کےاقدام کے واپسی کے مطالبے کے ساتھ طالبان حکام سے بات چیت کے لیے کابل پہنچے۔

طالبان حکمرانوں کی جانب سے 24 دسمبر کو نافذ کی گئی پابندی کے بعد سے جان ایجلینڈ افغانستان کا دورہ کرنے والے کسی بڑی خیراتی تنظیم کے پہلے سربراہ ہیں۔

ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں واپس آئے ہیں کیوں کہ خواتین این جی او ورکرز پر طالبان کی پابندی کی وجہ سے انہیں تمام ضرورت مند لوگوں کی امداد کا کام روکنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم این آر سی کی طرف سے سات لاکھ افغانوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے ان کی تنظیم سے وابستہ 469 خواتین ساتھیوں کا کام کرنا ضروری ہے اور ان کے عملے کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG