اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ سال پانچ کروڑ افراد کو جبری طور پر نقل مکانی کرنا پڑی جو کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سے ہونے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔
جمعہ کو دنیا بھر میں مہاجرین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے لیکن یہ اعداد و شمار ایسے نہیں کہ اس دن کو خوشی کے ساتھ منایا جا سکے۔
یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق پانچ کروڑ میں سے ایک کروڑ 67 لاکھ افراد کو جبری طور پر اپنا ملک چھوڑنا پڑا جب کہ تین کروڑ 33 لاکھ لوگ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوئے۔
ادارے کے سربراہ انٹونیو گوٹریس کا کہنا تھا کہ تازہ بحرانوں سے پیدا ہونے والی صورتحال ان اعدود و شمار میں اضافے کا سبب بنی۔
"ان تمام تنازعات نے امدادی اداروں کے لیے نہ صرف ڈرامائی صورتحال پیدا کر دی ہے بلکہ یہ آج عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک بڑے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں، ایک ایسا خطرہ جو ہر جگہ محسوس کیا گیا۔ لہذا مہاجرین کے ساتھ اظہار یکجہتی صرف ہمدردی کا معاملہ نہیں بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ خود آگاہی کا معاملہ ہے۔"
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سب سے زیادہ نقل مکانی شام کی جنگ کی وجہ سے ہوئی جہاں کے تقریباً 25 لاکھ افراد بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہوئے جب کہ 65 لاکھ افراد کو اندرون ملک ہی نقل مکانی کرنا پڑی۔
یو این سی آر کا کہنا ہے کہ جبری طور پر نقل مکانی افریقہ خصوصاً وسطی افریقی جمہوریہ اور جنوبی سوڈان میں بھی دیکھنے میں آئی۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کے زیر انتظام افغانستان، شام اور صومالیہ کے پناہ گزین سب سے زیادہ تعداد میں ہیں جو کہ دنیا بھر کے مہاجرین کی کل تعداد کا نصف سے بھی زائد بنتی ہے۔
نقل مکانی کرنے والی آبادی میں 50 فیصد بچے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دیگر ملکوں خصوصاً ترقی یافتہ ملکوں میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی تقریباً دس لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں 25300 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ان کا کوئی بڑا نہیں تھا۔
جمعہ کو دنیا بھر میں مہاجرین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے لیکن یہ اعداد و شمار ایسے نہیں کہ اس دن کو خوشی کے ساتھ منایا جا سکے۔
یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق پانچ کروڑ میں سے ایک کروڑ 67 لاکھ افراد کو جبری طور پر اپنا ملک چھوڑنا پڑا جب کہ تین کروڑ 33 لاکھ لوگ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوئے۔
ادارے کے سربراہ انٹونیو گوٹریس کا کہنا تھا کہ تازہ بحرانوں سے پیدا ہونے والی صورتحال ان اعدود و شمار میں اضافے کا سبب بنی۔
"ان تمام تنازعات نے امدادی اداروں کے لیے نہ صرف ڈرامائی صورتحال پیدا کر دی ہے بلکہ یہ آج عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک بڑے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں، ایک ایسا خطرہ جو ہر جگہ محسوس کیا گیا۔ لہذا مہاجرین کے ساتھ اظہار یکجہتی صرف ہمدردی کا معاملہ نہیں بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ خود آگاہی کا معاملہ ہے۔"
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سب سے زیادہ نقل مکانی شام کی جنگ کی وجہ سے ہوئی جہاں کے تقریباً 25 لاکھ افراد بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہوئے جب کہ 65 لاکھ افراد کو اندرون ملک ہی نقل مکانی کرنا پڑی۔
یو این سی آر کا کہنا ہے کہ جبری طور پر نقل مکانی افریقہ خصوصاً وسطی افریقی جمہوریہ اور جنوبی سوڈان میں بھی دیکھنے میں آئی۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کے زیر انتظام افغانستان، شام اور صومالیہ کے پناہ گزین سب سے زیادہ تعداد میں ہیں جو کہ دنیا بھر کے مہاجرین کی کل تعداد کا نصف سے بھی زائد بنتی ہے۔
نقل مکانی کرنے والی آبادی میں 50 فیصد بچے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دیگر ملکوں خصوصاً ترقی یافتہ ملکوں میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی تقریباً دس لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں 25300 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ان کا کوئی بڑا نہیں تھا۔