ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نےالزام لگایا ہے کہ طالبات کو زہر دینے کے واقعات میں ملک دشمن عناصر ملوث ہیں۔ حالیہ عرصے میں ایران کے کئی علاقوں میں اسکول جانے والی طالبات کو زہریلی گیس یا دھوئیں سے متاثر ہونے کے بعد علاج کے لیے اسپتالوں میں لے جانا پڑا۔
یونیسیف نے جمعرات کو ایران کو پیشکش کی ہے کہ وہ حال ہی میں سکولوں میں پیش آنے والے ان واقعات میں مدد فراہم کر سکتا ہے جن میں مضر صحت دھوئیں سے اسکول کے بچے، خاص طور پر لڑکیاں بیمار ہو رہی ہیں ۔ کچھ حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ واقعات خواتین کی تعلیم کے خلاف سازش ہو سکتی ہے۔
کچھ طلباء کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا ۔ بچوں نے شکایت کی کہ وہ سستی محسوس کررہے ہیں یا حرکت کرنے سے قاصر ہیں جب کہ دوسروں نے کہا ہے کہ ان کے سر میں درد ہے اور دل کی دھڑکن تیز ہے۔ کچھ نے کہا کہ انہیں سنگتروں ، کلورین یا صفائی کرنے والے محلول کی بو محسوس ہورہی تھی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی کمیشن کے رکن شہریار حیدری نے کہا کہ ملک کے مختلف صوبوں میں تقریباً 900 طلباء بیمار ہو گئے ہیں۔
بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا ہے ،کہ بچوں اور نوعمر افراد کے لیے اسکول ایک محفوظ پناہ گاہ ہوتی جہاں وہ ایک مددگار ماحول میں بحفاظت تعلیم حاصل کرتے ہیں ،لیکن اس طرح کے واقعات بچوں خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کی اس بلند شرح پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں ، جو حالیہ کئی دہائیوں میں حاصل کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یونیسیف ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے۔
اقوام متحدہ کا یہ بیان ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ نومبر سے لے کر اب تک تقریباً 30 سکولوں میں سینکڑوں لڑکیاں بیمار ہو چکی ہیں جو بہت تشویشناک ہے اور ملک کی وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صحت اور انٹیلی جنس کی وزارتوں کی مدد کے ساتھ فوری طور پر ان واقعات کی تحقیقات کرے ۔
یہ پہلی مرتبہ تھی کہ صدر رئیسی نے اسکول کے بچوں پر دھوئیں کے منفی اثرات اور بیماریوں کے بارے میں عوام سے خطاب کیا۔
اس سے قبل، ایک سینئر سیکیورٹی اہل کار نے اس معاملے کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا اور اسے ملک کے نامعلوم دشمنوں کی طرف سے چلائی جانے والی ایک نفسیاتی جنگ قرار دیا تھا۔
نائب وزیر داخلہ ماجد میراحمدی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا، اس میں سے 99 فیصد واقعات ، اس کشیدگی، افواہوں اور نفسیاتی جنگ کی وجہ سے پیدا ہوئے جو خاص طور پر مخالف ٹی وی چینلز کی طرف سے طلباء اور ان کے والدین کو پریشان کرنے کے لیے پھیلائی گئی تھیں ، اور ان کا مقصد تھا کہ مجبور ہو کر سکول بند کر دیے جائیں۔
مہینوں تک اس زہر آلودگی کی نفی کرنے کے بعد، سرکاری خبر رساں ادارے ارنانے اتوار کو اس حوالے سے متعدد خبریں شائع کیں جن میں حکام نے ایسے واقعات کی حقیقت کو تسلیم کیا۔
پراسیکیوٹر جنرل کا تحقیقات کا حکم
ایران کے پراسیکیوٹر جنرل نے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کے امکانات ہیں کہ جان بوجھ کر یہ مجرمانہ کارروائیاں کی گئی ہوں ۔ سرکاری خبررساں ادارے ارنا نے نائب وزیر صحت کے حوالے سے بتایا کہ نامعلوم لوگ اسکول بند کرانا چاہتے ہیں۔
ایک ایرانی صحافی اور سیاسی تجزیہ کار، حسن اعتمادی نے وی او اے کے فارسی نیو نیٹ ورک کو بتایا کہ یہ حیرانی کی بات ہے کہ تین ماہ قبل شروع ہونے والے زہر آلودگی کے واقعات پر ایرانی حکام کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ ان حملوں کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے۔
اعتمادی نے کہا کہ ان حملوں پیچھے ایرانی حکومت کا مقصد پنہاں ہے ۔ہم نے دیکھا کہ کچھ طلباء کے والدین کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجنا چاہتے۔ یہی ایرانی حکومت کا مقصد ہے۔حکام نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ اسکول اور یونیورسٹیاں بند کرنا چاہتے ہیں اور کم از کم کلاسیں آن لائن لگانا چاہتے ہیں۔
کوئی مشتبہ شخص گرفتار نہیں ہوا
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ان واقعات کے سلسلے میں کسی کو حراست میں نہیں لیا ہے، جب کہ بیمار ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پڑوسی ملک افغانستان کے برعکس، ایران میں کبھی ایسی مذہبی انتہا پسندی نہیں دیکھی گئی جس میں لڑکیوں کی تعلیم کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ یہا ں تک 1979 کے اسلامی انقلاب کے عروج کے وقت بھی جب ایران کی مغربی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا ، خواتین اور لڑکیوں نے اسکول جانا جاری رکھا ۔
زہر آلودگی کا واقعہ ایران میں ایک ایسے مشکل وقت پر سامنے آیا ہے، جب پچھلے سال ستمبر سے ایک نوجوان خاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔
اس 22 سالہ کرد خاتون کو ایرانی حکومت کے خواتین کے لباس سے متعلق سخت ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں اخلاقی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
حراست کے دوران اس پر مبینہ طور پر تشدد کیا گیا اور حالت بگڑنے پر اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی ۔
پولیس کسی قسم کے تشدد کی نفی کرتی ہے۔لیکن عوام اس کی موت پر برہم ہوگئے اور احتجاج شروع کر دیا ۔ ان ملک گیر مظاہروں میں سینکڑوں مظاہرین اور کچھ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔