بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں اور کشمیر کا متنازع علاقہ گزشتہ سات دہائیوں سے جزوی طور پر بین الاقوامی میڈیا میں ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔
تاہم گزشتہ سال بھارت نے پانچ اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-اے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے زیرِ انتظام مسلم اکثریتی علاقے کی جزوی آزاد حیثیت ختم کر دی تھی۔
اس اقدام کے بعد دونوں ممالک میں تناؤ اور سفارتی و عسکری جھڑپوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جس نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔
نئی دہلی نے 2019 میں اس خطے کو عملاً دو حصوں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے انہیں بھارتی یونین میں ضم کر دیا تھا۔ بھارت کے آئین کی ان ختم کی گئی شقوں کو کشمیر کی خود مختاری کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس اقدام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں خطے میں ترقی کا دروازہ کھلے گا۔
ان اقدامات سے بھارت کے شہری اب جموں و کشمیر میں جائیداد بھی خرید سکیں گے اور انہیں یہاں مستقل شہری کے طور پر آباد ہونے کا بھی موقع مل سکے گا۔
کشمیر کے حوالے سے آئنی ترمیم کے ساتھ ہی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کے علاقے میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور خطے میں 35 ہزار مزید فوجی تعینات کیے۔
علاوہ ازیں خطے کے لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولت ختم کر کے اس کا باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع کر دیا جب کہ کشمیر کے تین سابقہ وزرائے اعلیٰ سمیت تمام اہم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا۔
اس کے ردِ عمل میں کشمیری قیادت نے خطے میں بھارتی شہریوں کو آباد کرنے کی اجازت کو مقامی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کرنے کی سازش قرار دیا۔ جب کہ پاکستان نے اسے متنازع علاقے میں یک طرفہ فیصلہ قرار دے کر رد کر دیا۔
گزشتہ ایک سال سے اس خطے کے 80 لاکھ افراد لاک ڈاؤن کی سی کیفیت میں رہ رہے ہیں جب کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
بھارت اور پاکستان 1947 سے دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ جموں اور کشمیر کا پورا خطہ ان کی ملکیت ہے۔ وہ کئی جنگوں، جھڑپوں اور مذاکرات کے ذریعے بھی اس کا حال تلاش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھارت اور چین لداخ کے کچھ حصے کو اپنا علاقہ قرار دیتے رہے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی باونڈری لائن کو لائن آف کنٹرول (ایل اوسی) کہتے ہیں جب کہ بھارت اور چین کے درمیان لداخ اور تبت کو تقسیم کرتی ہوئی سرحد کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔
چین بھارت کشیدگی اور تنازع کشمیر
جون میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام لداخ اور بیجنگ کے زیرِ انتظام علاقے کے درمیان واقع وادی گلوان میں بھارت اور چین کے فوجیوں میں ہونے والی جھڑپوں نے خطے میں پہلے سے جاری کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق دونوں ملک مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک نے خطے میں ہزاروں کی تعداد میں مزید فوجی بھی تعینات کر دیے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے امور پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین میں جاری چپقلش نئی دہلی اور بیجنگ میں کچھ سالوں سے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کے مقابلے کی ایک کڑی بھی دکھائی دیتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کی دو وجوہات ہیں۔ بھارت کو اعتراض ہے کہ چین اور پاکستان کی راہداری اور چین کی مدد سے مستقبل میں تعمیر ہونے والا دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کے زیرِ انتظام اس علاقے میں آتے ہیں جس پر اس کا دعویٰ ہے۔
دوسری طرف چین، بھارت کے کشمیر اور لداخ میں حال ہی میں کیے گئے اقدامات کو جارحانہ رویہ اور خطے میں اپنی برتری کے لیے چیلنج سمجھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ان دونوں ممالک میں سفارتی اور معروضی کشمکش نے جہاں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر مزید نمایاں کیا ہے وہیں بھارت اور پاکستان میں صورتِ حال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔
واشنگٹن کے 'ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز' میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل گوگل مین کہتے ہیں کہ ایک طرف تو پاکستان اور چین دونوں سے سرحد پر بھارت کا تنازع ہے۔ دوسری طرف بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر کشمیر میں نئی دہلی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
ان کے بقول پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت پاکستان میں چینی منصوبوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
مائیکل گوگل مین کا کہنا ہے کہ ان دو طرفہ خطرات اور خدشات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بحران کتنا سنجیدہ ہے۔ اس کشیدہ صورتِ حال میں کوئی بھی عسکری غلطی خطرناک ہو سکتی ہے۔
کشمیر اور عالمی سفارت کاری
دنیا میں سب سے زیادہ عسکری موجودگی کا یہ خطہ 'نیوکلیئر فلیش پوانٹ' بھی کہلاتا ہے کیوں کہ یہاں تین ممالک یعنی بھارت، چین اور پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
ایک حالیہ مضمون میں عالمی سلامتی اُمور کے ماہر بروس رائیڈل نے چین اور بھارت میں لداخ میں جھڑپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 1962 کی چین، بھارت جنگ کے مقابلے میں آج کی صورتِ حال کہیں زیادہ پُرخطر ہے۔
سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ڈائریکٹر بروس راییڈل کے بقول پاکستان اس صورتِ حال کو بہت غور سے دیکھ رہا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ تینوں ممالک یعنی چین، بھارت اور پاکستان اب ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں۔ سس سے صورتِ حال مزید خطرناک بنتی ہے۔
اگست 2019 کے بھارتی فیصلے کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد نے اپنے اپنے موقف پر دنیا کو قائل کرنے کی بھر پور سفارتی کوششیں شروع کیں۔
اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کشمیری عوام کی زبوں حالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور بھارت سے آزادی رائے اور رابطوں پر عائد پابندیاں اٹھانے پر زور دیا۔ لیکن بڑھتی ہوئی پاکستان بھارت کشیدگی کو کم کرنے کی کوئی خاص کوشش سامنے نہ آئی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقاتوں میں کئی بار بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی۔ لیکن بھارت نے اس پیش کش کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں 'دی مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ' سے وابستہ پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ امریکہ کی یہ ہر ممکن کوشش ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کوئی تصادم یا جنگ نہ ہو۔
اُن کے بقول دونوں ملکوں میں تصادم سے یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ کہیں ایٹمی ہتھیار کا استعمال نہ ہو۔ اس سے عالمی امن اور ماحول کو بہت نقصان پہنچے گا۔
ان کے بقول دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں امریکہ پاکستان اور بھارت کے مابین اختلافات کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے سے پاکستان کی جانب سے اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔
مارون وائن بام کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر تناؤ بڑھتا ہے تو اس سے جہادی گروہوں کو مضبوط کرنے کا بہانہ ملے گا۔
ان کے مطابق جہادی گروہ اپنے آپ کو محبِ وطن پاکستانی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور خطے میں یہ اہم وقت ہے جب امریکہ پاکستان کی مدد سے افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گھمبیر صورت حال سے نکلنے کی راہ
خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ایسا پہلی بار ہو ا ہے کہ مسئلہ کشمیر کھل کر ایک سہ فریقی تنازع کے طو ر پر ابھرا ہے۔ دوسری جانب آخری بار چین اور بھارت میں عسکری تصادم تقریباً چھ دہائی قبل ہوا تھا۔
اس نئی صورت حال میں تینوں ممالک کے مفادات اور نقصانات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
بھارتی حکام کے مطابق اب اسے دو سرحدوں پر مقابلے کا سامنا ہے۔ پاکستان کہتا ہے کہ کشمیر نہ صرف قومی سلامتی کا مسئلہ ہے بلکہ کشمیریوں اور خطے کے مستقبل کا سوال ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ کرونا وبا اور اگست 2019 سے جاری بندشوں کے پیشِ نظر سب سے مقدم پہلو کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔
مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ یقیناً کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہونے اور سال بھر کی صورتِ حال نے کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کی طرف بین الاقوامی توجہ دلائی ہے جو نئی دہلی کی توقعات کے برعکس ہے۔
اُن کے بقول اس سے تنازع کشمیر کے کئی پہلو اجاگر ہوتے ہیں لیکن کرونا بحران اور اس سے پیدا ہونے والی اقتصادی اور مالی مشکلات نے دنیا کی توجہ اس معاملے سے ہٹا دی ہے۔
بروس رائیڈل کہتے ہیں کہ کرونا بحران نے بھارت، چین اور پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے اور تینوں ممالک کی قیادت نے وبا کا موثر انداز میں مقابلہ نہیں کیا۔
ان کے بقول وائرس نے عالمی رہنماؤں کے لیے فیصلہ سازی کے عمل کو دشوار کر رکھا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر عالمی امور کو دیکھا جائے تو اس دیرینہ مسئلے کے تین ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ممالک اسے دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ دوسرا یہ کہ امریکہ ثالثی کا کردار ادا کرے اور تیسرا یہ کہ اقوامِ متحدہ یا کوئی بھی بڑا عالمی ادارہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حائل اختلافات کی خلیج کو کم نہیں کر سکا۔
کوگل مین کے بقول بھارت اور پاکستان میں کشمیر اور دہشت گردی کے مسائل کے سیاسی یا سفارتی حل کے لیے سمجھوتے کی ضرورت ہے لیکن دونوں ممالک اپنے موقف سے ہٹنے پر راضی ہوتے نظر نہیں آتے۔
بھارت اور چین کے تنازع پر بروس رائیڈل کہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں اس وقت قوم پرستوں کی حکومت ہے اور دونوں ہی جارحانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ممکنہ کردار کے متعلق کوگل مین کہتے ہیں کہ یہ عالمی ادارہ ایک ثالث کے طور پر مفید تو ہو سکتا ہے لیکن حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قراردادیں پاس کرنے اور بات چیت کی میزبانی سے آگے موثر ثابت نہیں ہوتا۔ بھارت نے ویسے بھی کشمیر پر کسی تیسری پارٹی کے کردار کو رد کررکھا ہے۔
مبصرین کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں پاکستان اور بھارت دونوں ہی کو مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ان کے بقول عالمی سطح پر تنازع کا حل دور کی بات لگتی ہے اور کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اس صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچانا اس وقت دنیا کے لیے بہت بڑا امتحان ہے۔