افغانستان کے صدر اشرف غنی اور امریکی صدر براک اوباما منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں ملاقات کررہے ہیں، ایسے میں جب جنگ زدہ ملک میں امریکی فوجی موجودگی کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
صدر اشرف غنی اور چیف اگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، جو حکومت میں شراکت دار ہیں، پیر کو امریکی اعلیٰ حکام سے مل رہے ہیں، جن میں وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہوں گے، جنھوں نے بات چیت کو ’تعمیری‘ قرار دیا ہے۔
بات چیت کا مقصد باہمی تعلقات میں بہتری لانا ہے، جو تقریباً 14 برس سے جاری لڑائی اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ امریکہ کے مشکلات کے شکار تعلقات کے نتیجے میں کشیدہ رہے ہیں۔
پیر کو ہونے والی بات چیت کے دوران، راہنماؤں نے سکیورٹی کے معاملے پر مسٹر غنی کو لاحق تشویش پر بات کی، ایسے میں جب روایتی طور پر موسم بہار میں طالبان کے حملوں میں تیزی آ جاتی ہے۔
استحکام کو یقینی بنانے کے لیے، امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ کانگریس سے کہا جائے گا کہ افغان نیشنل سکیورٹی فورس کو کم از کم مالی سال 2017ء تک کے لیے 352000 فوجی تعینات رکھنے کی اجازت دی جائے۔
دونوں فریق نےاس ضرورت سے اتفاق کیا ہے کہ مخصوص اصلاحات کی تکمیل کی جائے اور مقرر اہداف پورے کیے جائیں، تاکہ 80 کروڑ ڈالر کی معاشی امداد فراہم کی جائے۔ امریکی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ افغان حکام نے تجویز دی ہے کہ اہداف کی تکمیل پر رقوم مختص کی جائیں۔
ایک اندازے کے مطابق، افغانستان میں اب بھی 9800 امریکی فوجی تعینات ہیں، جن کا کام یہ ہے کہ گذشتہ سال کے اواخر میں امریکی لڑاکا فوج کے انخلا کے بعد اب افغان فوج کو مشورے اور تربیت فراہم کی جائے گی۔
صدر اوباما نے اس سال کے آخر تک افغانستان میں امریکی فوج کی سطح گھٹا کر اندازاً 5500 تک لانے کا اعلان کیا ہے، جب کہ 2017ءکے اوائل تک جب وہ اپنا عہدہ چھوڑیں گے، اس میں مزید کمی لائی جائے گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو میں انخلا کی رفتار کا معاملہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ایک سوال پر، مسٹر غنی نے بتایا کہ وہ امریکی فوج کی موجود تعداد کو کافی گردانتے ہیں، جب کہ اُنھوں نے اس کی اصل تعداد نہیں بتائی۔