امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے دوران ملک سے باہر منتقل کیے جانے والے افغان مہاجرین کو ایک مہم کے ذریعے خسرے کی ویکسین دی جا چکی ہے، اور حکام کے مطابق، اب ان کا امریکہ آنے کا سلسلہ بحال کیا جا رہا ہے۔
تین ہفتوں پرمحیط مذکورہ مہم کے دوران 49,000 افغان شہریوں کو ویکسین لگائی گئی۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ افغان مہاجرین عارضی طور پر امریکی عسکری بیسز، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ٹرانزٹ مقامات پر رہ رہے ہیں۔
افغان مہاجرین کا امریکہ آنے کا سلسلہ اس وقت روک دیا گیا جب 24 لوگوں کو خسرہ ہوگئی۔ اس طرح 'آپریشن ایلائیز ویلکم' کے تحت آنے والے افغان شہری باہر کے ممالک میں ٹرانزٹ پوائنٹس پر پھنس گئے۔
ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کے چیف میڈیکل افسر ڈاکڑ پریتیش گاندھی نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے لیے مکمل کی گئی ویکسین کی مہم یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم افغان مہاجرین، ان کے لیے امدادی مشن میں شامل عملے اور امریکی لوگوں کی صحت اور بہتری کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
افغانستان سے آنے والے تمام افراد کو کرونا ٹیسٹ بھی کروانا ہوتا ہے۔ حکام کے مطابق اب تک امریکہ اور ملک سے باہر مختلف ٹرانزٹ مقامات پر موجود افغان مہاجرین میں سے 84 فیصد کو کرونا وائرس سے بچاو کی ویکسین لگائی جا چکی ہے۔
یاد رہے کہ اگست کے مہینے میں افغانستان سے افراتفری کے ماحول میں امریکہ نے ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں کو ملک سے نکالا تھا جبکہ دارالحکومت کابل میں افغان حکومت طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال چکی تھی۔
افغانستان سے باہر منتقل کیے جانے والے لوگوں میں امریکی شہری اور وہ افغان شہری شامل تھے جن کے پاس یا تو امریکہ میں مستقل رہائش رکھنے کی اجازت تھی یا پھر وہ لوگ تھے جنہوں نے مہاجرین کے طور پر اپنے خاندانوں کے ہمراہ امریکہ آنے کے لیے ویزا کی درخواستیں دے رکھی تھیں۔
گذشتہ ہفتے محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکرٹری الیجیندرو مائیورکاس نے کانگرس کی ایک سماعت کے دوران بتایا کہ افغانستان سے باہر منتقل کیے گئے افراد میں سے ساٹھ ہزار لوگوں کو امریکہ لایا جا چکا ہے۔ ان میں سات فیصد امریکی شہری ہیں اور چھ فیصد امریکہ میں مستقل سکونت رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔
ان لوگوں میں تین فیصد وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو ان کے خاندانوں کے ہمراہ ایک مخصوص امیگرینٹ ویزا دیا گیا، کیونکہ یہ لوگ افغانستان میں امریکی حکومت کے لیے ترجمان یا کسی اور حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
مہاجرین میں بقیہ لوگ وہ ہیں جو انسانی حقوق کے کارکن، صحافی یا وہ افراد ہیں جنہوں نے مہاجرین کی حیثیت سے امریکی ویزا کے لیے درخواستیں دے رکھی تھیں۔ یہ تمام لوگ افغانستان پر طالبان کے کنڑول کے بعد غیر محفوظ سمجھے جارہے تھے۔
امریکہ آنے سے پہلے ان تمام مہاجرین کی سیکیورٹی کے حوالے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
ڈی ایچ ایس حکام کے مطابق، امریکہ میں بسائے جانے والے مہاجرین میں سے اکثر امریکہ کے لیے کام کرتے تھے یا وہ کام کرنے والے افغانی شہریوں کے رشتہ دار ہیں۔
امریکہ میں آباد ہونے والےلوگوں میں سے حکام کے مطابق 40 فیصد لوگ سپیشل امیگرینٹ ویزا کے اہل ہیں۔
اس وقت امریکہ کی ملٹری بیسز پر تقریباً 53,000 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ امریکہ میں آباد کرنے سے پہلے انہیں طبی اور دوسرے شعبوں میں امداد فراہم کی جارہی ہے۔
امریکی ناردرن کمانڈ کے سربراہ جنرل گلین وین ہرک نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملٹری بیسز پر رکھے گئے افغان مہاجرین میں سےتقریباً 4,000 افغان مہاجرین کا طبی معائنہ مکمل کر لیا گیا ہے اور انہیں 21 دن کےلیے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ انہیں خسرے، تپ دق، ممپس اور روبیلا جیسے امراض سے بچاو کی ویکسین بھی لگائی جا چکی ہیں۔
یاد رہے کہ تمام امریکی بچین میں ان ویکسینز کا یہ کورس مکمل کر لیتے ہیں۔ توقع ہے کہ ان افغان مہاجرین کو آئندہ دنوں میں امریکہ میں آباد کیا جائے گا۔