رسائی کے لنکس

امریکہ 2024ء تک افغانستان میں فوجی موجودگی چاہتا ہے


امریکہ 2024ء تک افغانستان میں فوجی موجودگی چاہتا ہے
امریکہ 2024ء تک افغانستان میں فوجی موجودگی چاہتا ہے

برطانیہ کے ایک اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ، امریکا اور افغانستان ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت امریکی فوجی افغانستان میں کم از کم 2024ء تک موجود رہیں گے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک دسمبر میں جرمنی کے شہر بون میں افغانستان پر ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس سے پہلے اس معاہدے کو حتمی شکل دینا چاہتے ہیں ۔ واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے احمد ماجدیار کا کہنا ہے کے دونوں ممالک ایسے معاہدے کو اپنے مفاد میں دیکھتے ہیں۔

ان کا کہناہے کہ افغانستان میں لوگوں کو یہ اندازہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ 2014ءتک ختم نہیں ہو گی۔ اور افغان عہدے دار یہ مانتے ہیں کے تب تک افغان فوج بھی سیکیورٹی کی ذمہ داری مکمل طور پر سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ اس لیے2014 ءکے بعد افغان فوجیوں کی تربیت جاری رہے گی، اور ساتھ ساتھ امریکی سپیشل فورسز القاعدہ اور طابان کا مقابلہ کرتی رہیں گی۔

امریکا اور نیٹو ممالک نے پچھلے سال ا علان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں2014ء تک مکمل کرلیں گے۔لیکن احمد ماجدیار کا کہنا ہے کے اس معاہدے کے تحت، امریکی اسپیشل فورس افغانستان میں چھوٹے پیمانے پر ، مخصوص اور محدود کارروایئاں جاری رکھیں گی۔لیکن دوسری جانب ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کے موجودہ معاشی حالات میں امریکی کانگریس کے لیے مزید فوجیوں کو2014 ءکے بعد افغانستان بھیجنا تقریباًناممکن ہے۔ اور ان کے مطابق اسی وجہ سے اس معاہدے سے متعلق مذاکرات میں بھی امریکہ اور افغانستان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں ۔

ماجدیار کہتے ہیں کہ افغانستان چاہتا ہے کے یہ ایک اسٹرٹیجک معاہدہ ہو، جبکہ امریکہ اسے ایک ا سٹرٹیجک اعلامیہ بنانا چاہتا ہے۔ ان میں فرق یہ ہے کہ معاہدے کے لیے صدر کو کانگریس کی منظوری چاہئے ہو گی، جبکہ صدر اوباما ایک سٹرٹیجک اعلامیے پر کانگریس سے منظوری لیئے بغیر بھی دستخط کر سکتے ہیں ۔

اس معاہدے سے متعلق خبروں پر اب تک ایران اور روس کی جانب سے منفی رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔اس کے علاوہ،ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی جانب سے غیر سرکاری سطح پر ایسے کسی معاہدے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔واشنگٹن کے تحقیقی ادارے سینٹر فار نیوامریکن سوسائٹی کے تجزیہ کار پیٹرک کورنن کہتے ہیں کہ پاکستان میں سوچ یہ ہے کے امریکہ خطے سے چلا جائے گا ، اور اس وجہ سے وہ امریکہ کے ساتھ پوری طرح تعاون نہیں کررہا۔ چنانچہ ایسے معاہدے کے ذریعے امریکہ پاکستان کو بھی یہ پیغام بھیج رہا ہے کہ ہم افغاستان میں طویل عرصے کے لیے رہیں گے۔

پیٹرک کورنن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا معاہدہ امریکہ کی جانب سے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی ہے کہ وہ ماضی کی طرح یہ خطہ اپنے قلیل مدتی مقاصد کے حصول کے بعد چھوڑ کر نہیں جائے گا بلکہ اس خطے کے لیے اس کے مفادات طویل عرصے کے لیے ہیں۔کیونکہ امریکہ کا خیال ہے کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی صورت میں دنیا کی سیکیورٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

رپورٹس کے مطابق امریکی اور افغان عہدے دار ستمبر میں اس معاہدےپر مزید بات چیت کریں گے۔

XS
SM
MD
LG