امریکہ میں حکام نے بتایا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں بحریہ کی تنصیب میں فائرنگ کرنے والا شخص فوجی ٹھیکے دار سے وابستہ تھا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اس ملازم نے مبینہ طور پر اکیلے ہی یہ حملہ کیا۔
واشنگٹن پولیس کی سربراہ کیتھی لینیئر نے واقعے کے چند گھنٹوں بعد صحافیوں کو بتایا کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ ارون الیکس نامی اس شخص کے ساتھ کوئی اور بھی اس واقعے میں ملوث تھا۔
قبل ازیں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اس حملے میں ایک سے زائد افراد ملوث ہو سکتے ہیں جس کی تلاش کے لیے پولیس مصروف عمل ہے۔
چونتیس سالہ الیکس ریاست ٹیکساس کے علاقے فورٹ ورتھ کا رہائشی تھا اور وہ حملے کے کچھ ہی دیر بعد پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ اس حملے میں 13 افراد ہلاک ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ الیکس نیوی یارڈ میں مصدقہ شناختی کارڈ کے ذریعے داخل ہوا اور اس کے پاس فوجی طرز کی خودکار رائفل ایک شاٹ گن اور ایک ہینڈ گن تھی۔ اس نے ’نیول سی سسٹم کمانڈ‘ میں داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کردی۔
یہ ادارہ بحری جہازوں اور آبدوزوں کی خریداری، تیاری اور دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہاں تقریباً تین ہزار لوگ کام کرتے ہیں جن میں اکثریت سویلین کی ہے۔
الیکس 2007ء سے 2011ء تک امریکی بحریہ سے ریزروو سیلر کے طور پر منسلک رہا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسے فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں دو بار گرفتار بھی کیا جا چکا تھا۔ ان میں سے ایک 2004ء میں سیاٹل اور 2010ء میں فورٹ ورتھ میں پیش آیا۔
واشنگٹن کے میئر ونسٹن گرے کا کہنا تھا کہ پیر کو پیش آنے والے واقعے میں آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان کے بقول فائرنگ کے بظاہر کوئی محرکات نہیں تھے۔
پولیس نے پیر کو رات دیر گئے مرنے والوں کی شناخت جاری کی اور اس میں 40 سال سے لے کر 70 سال تک کے لوگ شامل تھے۔
پیر کی رات نیول یارڈ سے ملحقہ علاقوں کے رہائشی یہاں جمع ہوئے اور مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔ اسی شب اٹلانٹا بریووز اور واشنگٹن نیشنلز کے درمیان قریبی اسٹیڈیم میں ہونے والا بیس بال کا میچ بھی منسوخ کر دیا گیا۔
صدر براک اوباما نے تین دن تک قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ انھوں نے اس حملے کو ایک ’’بزدلانہ کارروائی‘‘ قرار دیا۔
واشنگٹن پولیس کی سربراہ کیتھی لینیئر نے واقعے کے چند گھنٹوں بعد صحافیوں کو بتایا کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ ارون الیکس نامی اس شخص کے ساتھ کوئی اور بھی اس واقعے میں ملوث تھا۔
قبل ازیں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اس حملے میں ایک سے زائد افراد ملوث ہو سکتے ہیں جس کی تلاش کے لیے پولیس مصروف عمل ہے۔
چونتیس سالہ الیکس ریاست ٹیکساس کے علاقے فورٹ ورتھ کا رہائشی تھا اور وہ حملے کے کچھ ہی دیر بعد پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ اس حملے میں 13 افراد ہلاک ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ الیکس نیوی یارڈ میں مصدقہ شناختی کارڈ کے ذریعے داخل ہوا اور اس کے پاس فوجی طرز کی خودکار رائفل ایک شاٹ گن اور ایک ہینڈ گن تھی۔ اس نے ’نیول سی سسٹم کمانڈ‘ میں داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کردی۔
یہ ادارہ بحری جہازوں اور آبدوزوں کی خریداری، تیاری اور دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہاں تقریباً تین ہزار لوگ کام کرتے ہیں جن میں اکثریت سویلین کی ہے۔
الیکس 2007ء سے 2011ء تک امریکی بحریہ سے ریزروو سیلر کے طور پر منسلک رہا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسے فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں دو بار گرفتار بھی کیا جا چکا تھا۔ ان میں سے ایک 2004ء میں سیاٹل اور 2010ء میں فورٹ ورتھ میں پیش آیا۔
واشنگٹن کے میئر ونسٹن گرے کا کہنا تھا کہ پیر کو پیش آنے والے واقعے میں آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان کے بقول فائرنگ کے بظاہر کوئی محرکات نہیں تھے۔
پولیس نے پیر کو رات دیر گئے مرنے والوں کی شناخت جاری کی اور اس میں 40 سال سے لے کر 70 سال تک کے لوگ شامل تھے۔
پیر کی رات نیول یارڈ سے ملحقہ علاقوں کے رہائشی یہاں جمع ہوئے اور مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔ اسی شب اٹلانٹا بریووز اور واشنگٹن نیشنلز کے درمیان قریبی اسٹیڈیم میں ہونے والا بیس بال کا میچ بھی منسوخ کر دیا گیا۔
صدر براک اوباما نے تین دن تک قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ انھوں نے اس حملے کو ایک ’’بزدلانہ کارروائی‘‘ قرار دیا۔