افغانستان کے کئی اضلاع پر کنٹرول کے دعوے کے بعد اب افغان طالبان نے ملک کے صوبائی دارالحکومتوں کا رُخ کر لیا ہے۔ قندھار، ہرات اور لشکر گاہ کے حصول کے لیے افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
اس سے قبل طالبان نے افغانستان کےنصف سے زیادہ اضلاع پر کنٹرول کا دعویٰ کیا تھا جس کے دوران اُنہوں نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اہم سرحدی گزرگاہوں اور شاہراہوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جنوبی شہر لشکر گاہ میں پولیس ہیڈ کوارٹرز اور گورنر ہاؤس چاروں اطراف سے طالبان کے گھیرے میں ہیں۔
افغان فوج اس وقت قندھار، ہرات اور ہلمند صوبوں کے دفاع کے لیے کمر بستہ ہے جب کہ طالبان ان پر قبضے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
افغانستان کے دوسرے بڑے شہر، قندھار پر اتوار کو راکٹ حملوں کے بعد سے پروازیں عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ اس حملے کی ذمے داری بھی طالبان نے قبول کی تھی۔
دوسری جانب افغان ایئر فورس نے طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے طالبان کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان فورسز حالیہ دنوں میں چھینے گئے علاقوں کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔
افغان اُمور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق، عبدالسید کا کہنا ہے کہ قندھار، ہرات اور ہلمند میں گھمسان کی لڑائی کی وجہ یہ ہے کہ افغان فورسز نے طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں کو چھڑوانے کے لیے تازہ کارروائیاں شروع کی ہیں۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ ان صوبوں میں جنگ شدت اختیار کر چکی ہے جس سے فریقین کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے علاوہ عوام کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ان علاقوں سے ہزاروں خاندان محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبدالسید نے مزید بتایا کہ طالبان کے عزائم بتا رہے ہیں کہ وہ امریکی انخلا کے بعد وہ خود کو یقینی طور پر افغانستان کا حکمران تصور کیے ہوئے ہیں۔ لہذٰا وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کم سے کم جانی اور مالی نقصانات سے جلد از جلد زیادہ سے زیادہ علاقوں کو افغان حکومت سے چھین لیں۔
عبدالسید کے مطابق یہی وجہ ہے کہ جن صوبوں میں طالبان نے حیران کن رفتار سے بیشتر اضلاع پر قبضہ کیا وہاں کی بااثر سیاسی قیادت، وار لارڈز اور حکومتی اہل کاروں پر یہ الزامات لگ رہے ہیں کہ شاید اُنہوں نے طالبان سے خفیہ سمجھوتے کر لیے ہیں۔
البتہ افغان امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان کابل کو بھی اسی آسانی سے حاصل کر لیں گے جس نوعیت کی پیش قدمی وہ دوسرے صوبوں میں کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کابل پر حملے کی صورت میں طالبان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو افغان عوام کے لیے شدید جانی اور مالی نقصانات کا سبب بنے گا۔ اس لیے یہ کوششیں کی جا رہی ییں کہ کابل پر جنگ کی نوبت آنے سے قبل سیاسی عمل سے کوئی درمیان کی راہ نکالی جائے۔
ہرات میں مقامی ملیشیا بھی طالبان کے خلاف سرگرم
ایران سے متصل مغربی صوبے ہرات کے کنٹرول کے لیے طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ ہرات میں افغان فورسز کے ہمراہ طالبان مخالف اہم کمانڈر اسماعیل خان بھی اپنی ملیشیا کے ساتھ طالبان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں اسماعیل خان کو سفید کپڑوں میں ملبوس ہتھیار اٹھائے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں بھی شدید لڑائی جاری ہے. طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے کابل حکومت فضائی حملوں کا سہارا لے رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے لشکر گاہ کے مقامی صحافی عزیز احمد شفیع نے بتایا کہ افغانستان کا صوبہ ہلمند 14 اضلاع پر مشتمل ہے جس میں سے نو مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہیں جب کہ پانچ پر حکومت کی عمل داری ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لشکر گاہ کے مرکز کے کنٹرول کے لیے سخت لڑائی جاری ہے۔ طالبان اور افغان فورسز کی جانب سے ایک دوسرے کو جانی نقصان پہنچانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
عزیز شفیع کے مطابق لشکر گاہ میں گزشتہ کئی روز سے شدید لڑائی جاری ہے۔ طالبان نے مقامی افراد کے گھروں میں مورچے بنا لیے ہیں۔ سیکڑوں افراد لڑائی کے باعث اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
عزیز احمد شفیع کا کہنا تھا کہ وہ بھی لشکر گاہ میں ایک گھر میں پناہ لیے ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنی صحافتی ذمے داریاں نبھا سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑائی کے باعث امدادی کاموں میں بھی دقت کا سامنا ہے اور اتوار کو ایک سول اسپتال بھی بمباری کی زد میں آیا جس کی وجہ سے اسپتالوں تک رسائی میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔