امریکہ کی ایک وفاقی اپیل کورٹ نے جمعرات کے روز ٹرمپ انتظامیہ کی ایک اپیل مسترد کر دی جس میں امریکہ میں داخلے سے متعلق صدارتی پابندی کے حکومتی موقف کے خلاف ہوائی کے ایک وفاقی جج کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
سیاٹل کی 9 ویں اپیل کورٹ کے تینوں ججوں نے اپنے متفقہ فیصلے میں ہوائی کے وفاقی جج کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ حکومت یہ وضاحت کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اگر ساس اور سسر قریبی رشتے دار ہیں تو دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی اور کزن قریبی رشتے دار کیوں نہیں ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ نے جون میں اپنے فیصلے میں صدر ٹرمپ کے ایران، لیبیا، سوڈان، شام، اور یمن کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے پر 90 دن کی پابندی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں ان ملکوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے قریبی رشتے داروں اور ملازمت حاصل کرنے والوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔
امریکی حکومت نے قریبی عزیزوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس میں ماں باپ بہن بھائی اور ساس سسر کو تو شامل کر لیا تھا لیکن باقی تمام رشتے داروں کو اس فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ جس کے خلاف ہوائی کی وفاقی عدالت میں اپیل کی گئی تھی۔
وفاقی جج رونلڈ گولڈ نے ڈپٹی اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ انتظامیہ نے قریبی عزیزوں کی یہ وضاحت کس دنیا سے درآمد کی ہے جس میں ساس اور سسر تو قریبی رشتے دار ہیں لیکن دادا دادی اور چچا ماموں وغیرہ قریبی رشتے دار نہیں ہیں۔
سرکاری وکیل کوئی واضح جواب دینے میں ناکام رہے اور انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو کہیں نہ کہیں تو حد مقرر کرنی تھی۔
عدالت سرکاری موقف سے مطمئن نہیں ہوئی اور اس نے ہوائی کے وفاقی جج کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے حکومت کی اپیل مسترد کر دی۔