امریکہ نے جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (آسیان) کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا ہے، جس کے لیے صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ آئندہ سالوں میں امریکہ خطے میں ایک قائدانہ کردار ادا کرے گا۔
ہفتے کو کوالالمپور میں صدر اوباما نے کہا کہ ’میں نے آسیان کے ممالک کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری مضبوط کی ہے، تاکہ آسیان ایک متحد، مضبوط اور مؤثر تنظیم بنے، جو ایشیا کے مرکز میں استحکام، خوشحالی اور امن کا باعث ہو‘۔
ایک مشترکہ بیان میں وائٹ ہاؤس اور آسیان کے سربراہانِ مملکت نے کہا ہے کہ اُنھوں نے اِن تعلقات کو’ آسیان امریکہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘ میں تبدیل کر دیا ہے، جن کا مشترکہ ہدف ایشیا پیسیفک میں ایک پُرامن اور خوشحال علاقے کا قیام ہے۔
اوباما نے کہا کہ ایشیا پیسیفک میں واضح ’ضابطوں کی بنیاد پر‘ پروان چڑھنے والا آسیان ایک کلیدی کردار ادا کرے، اور اُن کی نئی ساجھے داری ’آئندہ عشروں‘ کے دوران اُن کے تعلقات کو استوار کرنے میں ایک رہنما کردار نبھائے۔
اُنھوں نے آسیان ملکوں سے کہا کہ وہ جنوبی بحیرہ چین کے لیے ایک بین الاقوامی ضابطہ کار قائم کرے، جو خطہ چین اور خطے کے دیگر ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں متعدد علاقائی تنازعات کا سبب بنا رہا ہے۔
ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل، تنظیم نے چین کے ساتھ ایک ضابطہ کار پر گفتگو کا آغاز کیا تھا، لیکن وہ متعلق فریق پر قوی اختیار کا حامل نہ بن سکا۔
آسیان کا اعلان کردہ یہ نیا منصوبہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطے وضع کرے گا جن کی مدد سے تنازعات کا ایک پُرامن حل تلاش کرنے میں مدد مل سکے، جن میں بحری مواصلات اور فضائی حدود کی آزادی کے سوالات شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بارہا کہا ہے کہ بحریہ جنوبی چین میں ضابطہ کار قائم کرنے سے، علاقائی سلامتی اور معاشی خوش حالی بڑھے گی، جو ایشیا پیسیفک سے متعلق امریکی پالیسی کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ خطہ بحری راستے سے دنیا بھر کو سامان کی ترسیل کی اہم گزر گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین پر چین کے علاقائی دعوے کی بنا پر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تناؤ میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔
بیجنگ تقریباً گذشتہ دو برسوں سے مٹی ڈھونے اور متنازع سات مقامات کی سطح بلند کرکے چھوٹے مصنوعی جزیرے تعمیر کر رہا ہے۔ اِن میں سے حال ہی میں بنائے گئے دو جزیروں پر جہازوں کے اترنے کے اڈے اور بندرگاہ بنائے گئے ہیں، جہاں فوجی طیارے اور بحری بیڑے آ جا سکتے ہیں۔
اس کے باعث، ہمسایہ ملک چین کے عزائم پر شبہے کا اظہار کر رہے ہیں۔
اوباما نے کہا کہ ’علاقائی استحکام کی خاطر، دعوے داروں کو متنازع علاقوي میں زمین کے حصول، نئی تعمیرات، اور فوجی مقاصد کو فروغ دینے کے کام کو روکنا ہوگا‘۔
اس سے قبل، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس امید کا اظہار کیا کہ اتفاق رائے کی بنیاد پر ضابطہ کار کی جلد منظوری دی جائے گی، اور بحیرہ جنوبی چین کے تنازع کے متعلقہ فریق پر زور دیا کہ وہ ہدایت نامے کی روشنی میں عمل کریں جن پر عمل کیا جا سکے۔